گمراہ کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے

 امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں
أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله أن الصلاة خلف أهل الأهواء لا تجوز
گمراہ کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے 
بحوالہ کتاب الفتح الکبیر جلد اول صفحہ 350
یہ عبارت "قال أبو حنيفة وأبو يوسف رحمهما الله: لا تجوز الصلاة خلف أهل الأهواء" (امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ نے فرمایا کہ اہلِ اہواء کے پیچھے نماز جائز نہیں) —
واقعی فقہی متون میں پائی جاتی ہے، مگر تمہیں اس کے سیاق اور تفصیل سمجھنی ہوگی، کیونکہ اسے عام کر کے پیش کرنا علمی طور پر غلط تاثر دیتا ہے۔
🔹 اصل ماخذ:
یہ قول الفتح الكبير (شرح الفتح القدير، مؤلف: محمد بن عبد الواحد الزيلعي الحنفي، جلد 1 ص 350) میں موجود ہے۔
وہاں یہ بات نقل کی گئی ہے کہ:
"وقال أبو حنيفة وأبو يوسف: لا تجوز الصلاة خلف أهل الأهواء"
لیکن ساتھ ہی فقہاء نے تفصیل بیان کی ہے کہ "أهل الأهواء" سے مراد وہ لوگ ہیں جو بدعتِ مکفرہ یا شدید بدعت والے ہوں، یعنی جن کی بدعت کفر یا فسقِ ظاہر تک پہنچتی ہو — نہ کہ ہر مخالفِ رائے والا۔
🔹 فقہی وضاحت (حنفیہ کے اصول کے مطابق):
اگر امام بدعتِ مکفرہ (مثلاً: انکارِ ضروریاتِ دین، یا قرآن کی تحریف کا قائل) رکھتا ہے → اس کے پیچھے نماز ناجائز اور باطل ہے۔
اگر بدعت غیر مکفرہ ہے (مثلاً: رفع یدین، آمین بالجہر وغیرہ جیسے اختلافی مسائل) → اس کے پیچھے نماز درست ہے، اگرچہ مکروہ ہوسکتی ہے۔
🔹 امام طحاوی (شرح معاني الآثار 1/375)،
اور علامہ ابن عابدین (رد المحتار 1/562) دونوں نے واضح کیا کہ:
"تجوز الصلاة خلف المبتدع إذا لم تكن بدعته مكفرة."
یعنی: اگر اس کی بدعت کفر والی نہ ہو تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے۔

📘 خلاصہ:
امام اعظم اور امام ابو یوسف کا قول اہل الأهواء (گمراہ بدعتی) کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے بارے میں مطلق نہیں، بلکہ بدعتِ مکفرہ والوں پر خاص ہے۔
عام مخالفِ مسلک یا اجتہادی اختلاف رکھنے والے ائمہ پر یہ حکم لاگو نہیں ہوتا۔









Post a Comment

0 Comments