تعامل حدیث تلقی بلقبول ہے۔علماء کا عمل ضعیف حدیث کو صحیح کر دیتا ہے۔





حوالہ 1

امام عبد الرحمن بن ابو بکر جلال الدین سیوطی شافعی 911ھ رحمه الله فرماتے ہیں



 یحكَمُ لِلْحَدِيثِ بِالصِّحَّةِ إِذَا تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.


 حدیث پاک پر صحیح ہونے کا حکم کردیا جاتا ہے جب لوگ اس حدیث پاک کو قبول 
فرمالیں اگرچہ اس حدیث پاک کی کوئی صحیح سند نا ہو


[تدریب الراوی ج 01 ص 66






حوالہ 2



امام محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي 906ھ رحمه الله فرماتے ہیں



 وَكَذَا إِذَا تَلَقَّتِ الْأُمَّةُ الضَّعِيفَ بِالْقَبُولِ يُعْمَلُ بِهِ عَلَى الصَّحِيحِ، حَتَّى إِنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْمُتَوَاتِرِ فِي أَنَّهُ يَنْسَخُ الْمَقْطُوعَ بِهِ.


 جب امت حدیث ضعیف کو قبول کرے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ حدیث قطعی نص کو منسوخ کرنے میں متواتر کے رتبے میں سمجھی جائے گی۔


[فتح المغیث للسخاوی ج 01 ص 360]





حوالہ 3

امام بدر الدين محمد بن عبد الله زکشی شافعی 794ھ رحمه الله فرماتے ہیں


الثَّالِث أَن الحَدِيث الضَّعِيف إِذا تَلَقَّتْهُ الْأمة بِالْقبُولِ عمل بِهِ على الصَّحِيح حَتَّى إِنَّه ينزل منزلَة الْمُتَوَاتر فِي أَنه ينْسَخ الْمَقْطُوع۔
 

تیسری بات یہ کہ حدیث ضعیف کو جب امت قبول کرے تو صحیح یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا اور وہ نص قطعی کو منسوخ کرنے میں متواتر کے درجے میں سمجھی جائے گی۔


[النکت علی مقدمة ابن الصلاح ج 01 ص 390]



حوالہ 4

شیخ تقی الدین احمد ابن عبد الحلیم ابن تیمیہ صاحب لکھتے ہیں



 فالْخَبَرُ الَّذِي تَلَقَّاهُ الْأَئِمَّةُ بِالْقَبُولِ تَصْدِيقًا لَهُ أَوْ عَمَلًا بِمُوجَبِهِ يُفِيدُ الْعِلْمَ عِنْدَ جَمَاهِيرِ الْخَلَفِ وَالسَّلَفِ وَهَذَا فِي مَعْنَى الْمُتَوَاتِرِ۔


 پس وہ خبر جسے امت نے قبول کیا ہو اس کی تصدیق کر کے یا اس کے مقتضی پر عمل کر کے تو وہ جمھور ائمہ و اسلاف کے نزدیک علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہ متواتر کے معنی میں ہے۔


[مجموع الفتاوی جلد 18 ص 4


حوالہ نمبر 5

مولوی محمد بن أبي بكر ابن قیم الجوزیہ 751ھ لکھتے ہیں


 وَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ لَا تَثْبُتُ مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ، وَلَكِنْ لَمَّا تَلَقَّتْهَا الْكَافَّةُ عَنْ الْكَافَّةِ غَنُوا بِصِحَّتِهَا عِنْدَهُمْ عَنْ طَلَبِ الْإِسْنَادِ لَهَا


 ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں " اگر یہ احادیث سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہوتی لیکن جب امت کے گروہ مے دوسرے گروہ سے قبول کرلیا ہو تو ان کا اس حدیث کو قبول کرنا اس کی صحت کو مستغنی کردیتا ہے اس کی سند کو طلب کرنے سے"


[اعلام الموقعین ج 01 ص 155]


حوالہ 6


امام عليّ بن علي بن محمد بن أبي العز الدمشقي (ت ٧٩٢ هـ) رحمه الله فرماتے ہیں


وَخَبَرُ الْوَاحِدِ إِذَا تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ عَمَلًا بِهِ وَتَصْدِيقًا لَهُ -: يُفِيدُ الْعِلْمَ الْيَقِينِيَّ عِنْدَ جَمَاهِيرِ الْأُمَّةِ، وَهُوَ أَحَدُ قِسْمَيِ الْمُتَوَاتِرِ. وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ سَلَفِ الْأُمَّةِ فِي ذَلِكَ نِزَاعٌ


 اور خبر واحد کو جب امت قبول کرلے اس پر عمل کر کے یا اس کی تصدیق کر کے تو جمھور امت کے نزدیک وہ خبر علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے اور یہ متواتر ہی کی ایک قسم ہے اور اس متعلق اسلاف امت میں کسی قسم کا نزاع نہیں ہے۔


[شرح عقيدة الطحاوية ج 02 ص 501



حوالہ 7


امام أبو بكر أحمد بن علي خطیب بغدادی 463ھ رحمه الله فرماتے ہیں



 وَمِنْهَا: خَبَرُ الْوَاحِدِ الَّذِي تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ فَيُقْطَعُ بِصِدْقِهِ سَوَاءٌ عَمِلَ بِهِ الْكَلُّ أَوْ عَمِلَ بِهِ الْبَعْضُ.


 اور علم یقین کا فائدہ دینے والوں میں وہ خبر واحد بھی ہے جسے امت نے قبول کیا ہو پس اس کا سچا ہونا قطعیت کو پہنچادیا جاتا ہے برابر ہے کہ اس پر سارے کے سارے عمل کرے یا بعض عمل کریں


[الفقيه و المتفقه ج 01 ص 278]


حوالہ 8



امام أبو الحسين القدوري أحمد بن محمد البغدادي الحنفي (٤٢٨ هـ) فرماتے ہیں


 ومن أصحابنا من قال: إنها نسخت بقوله : "لا وصية لوارث" (٤)، وهذا خبر تلقته 
الأمة بالقبول، وعملوا بموجبه، فهو في خبر ما يوجب العلم.


 ہمارے اصحابِ میں سے بعض نے فرمایا کہ یہ منسوخ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں"  سے اور یہ ایسی خبر ہے جسے امت نے قبول کیا ہے اور اس کے موجب پر عمل کیا ہے لہذا یہ اس خبر کے درجے میں ہے جو علم کا فائدہ دیتی ہے۔

[شرح مختصر الكرخي ج 01 ص 07]


حوالہ 9


امام أبو الحسن علي بن محمد بن محمد بن حبيب البصري البغدادي، الشهير بالماوردي 450ھ رحمه الله فرماتے ہیں


فَإِنْ قِيلَ: فَالْقِيَاسُ أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ، وَهَذَا خَبَرٌ وَاحِدٌ لَا تَثْبُتُ بِهِ الْأُصُولُ الشَّرْعِيَّةُ؟ قِيلَ: قَدْ تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ فَجَرَى مَجْرَى التَّوَاتُرِ.
 

ایک حدیث پاک کے متعلق فرماتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ قیاس شرع میں اصل ہے اور یہ خبر واحد ہے اس سے اصول شرعیہ نہیں ثابت ہوسکتے تو جواب دیا گیا کہ تحقیق اس حدیث کو امت نے قبول کیا ہے تو یہ متواتر کی طرح ہوگئی ہے۔

[الحاوي الكبير للماوردی ج 16 ص 138]























Post a Comment

0 Comments