غیر اللہ سے استمداد کا جواز & حدیث "یاعباد اللہ اعینونی" کی صحت اور "تلقی بالقبول شروع سے ہے اس امت کا نعرہ یارسول الله مدد"صلى الله عليه وسلم
" 💯🫀❤
> " (پاڑٹ : 02)
#Ahl_Sunnat_Wa_Jamat👀✍🏻
#Madad_Ya_Rasul_Allah🌹
حضورِ پرنور خاتمُ النبیین ﷺ اور اولیاء اللہ سے توسل ہر حالت میں جائز ہے،💯
جبکہ وہابیہ فرقے کا دعویٰ ہے کہ "اسباب سے ہٹ کر مدد لینا ناجائز ہے" ❌۔
اس پر ہم اُن کے رد میں کئی احادیث پیش کرتے ہیں جن میں سے ایک حدیث👇🏻
"يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي" بھی ہے 📜۔
اور گزشتہ پارٹ میں ہم نے اس کی اسنادی حیثیت پر مختصر کلام کیا تھا،🫀
جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ حدیثِ پاک شواہد کی بنا پر سند کے اعتبار سے حسن ہے 🌟۔
آج ہم اس حدیث کو ایک اور اصول سے "صحیح" ثابت کریں گے،
اور وہ اصول ہے ✨ "تلقّی بالقبول"۔
سب سے پہلے ہم اعلیٰ حضرت کا موقف ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں پھر دیگر ائمہ اہل سنت کی اس متعلق عبارات آپ کے گوش گزار کریں گے۔🌹
امام اہل سنت کا موقف👇🏻
چناچہ اعلی حضرت امام اہل سنت مجدد مائۃ حاضرہ صاحب الحجة القاهرة المؤید ملة الطاهره الشاه امام احمد رضا خان محدث بریلوی نور اللہ مرقدہ اس متعلق فرماتے ہیں:🌹
تلقی علماء بالقبول وہ شے عظیم ہے جس کے بعد ملاحظہ سند کی حاجت نہیں رہتی بَلکہ سند ضعیف بھی ہوتو حرج نہیں کرتی💯
[فتاوی رضویہ ج 30 ص 658]📚✍🏻
جی ہاں 🌹✨
"تلقی بالقبول" کا یہی مطلب ہے جو امام اہلِ سنت رحمہ اللہ نے بیان فرمایا — یعنی امت کا کسی حدیث کو قبول کر لینا ہی اس کی صحت کی دلیل ہے۔ 📜💫
اور جس حدیثِ پاک کو تلقی بالقبول حاصل ہو، اس کی سند کی طرف حاجت نہیں رہتی۔ یعنی عموماً احادیث کی صحت کا علم ان کی سند کو دیکھ کر ہوتا ہے، لیکن جس حدیث کو امت قبول کر لے،🌹
اس کی سند کو دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ اگر سند کہیں مذکور نہ بھی ہو تب بھی امت کا قبول کر لینا، اس حدیثِ پاک کی صحت کی دلیل ہے۔ 🌺📖
اب ملاحظہ فرمائیں 👇
ائمہ اہلِ سنت کے 10 حوالاجات "تلقی بالقبول" کے متعلق: 🌟📚✨
1. 🔑امام عبد الرحمن بن ابو بکر جلال الدین سیوطی شافعی 911ھ رحمه الله فرماتے ہیں:💯
> یحكَمُ لِلْحَدِيثِ بِالصِّحَّةِ إِذَا تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.
حدیث پاک پر صحیح ہونے کا حکم کردیا جاتا ہے جب لوگ اس حدیث پاک کو قبول فرمالیں اگرچہ اس حدیث پاک کی کوئی صحیح سند نا ہو❤
[تدریب الراوی ج 01 ص 66]✍🏻📚
2. 🔑امام محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي 906ھ رحمه الله فرماتے ہیں:💯
> وَكَذَا إِذَا تَلَقَّتِ الْأُمَّةُ الضَّعِيفَ بِالْقَبُولِ يُعْمَلُ بِهِ عَلَى الصَّحِيحِ، حَتَّى إِنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْمُتَوَاتِرِ فِي أَنَّهُ يَنْسَخُ الْمَقْطُوعَ بِهِ.
جب امت حدیث ضعیف کو قبول کرے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ حدیث قطعی نص کو منسوخ کرنے میں متواتر کے رتبے میں سمجھی جائے گی۔👀🔥
[فتح المغیث للسخاوی ج 01 ص 360]📚✍🏻
3. 🔑امام بدر الدين محمد بن عبد الله زرکشی شافعی 794ھ رحمه الله فرماتے ہیں:💯
> الثَّالِث أَن الحَدِيث الضَّعِيف إِذا تَلَقَّتْهُ الْأمة بِالْقبُولِ عمل بِهِ على الصَّحِيح حَتَّى إِنَّه ينزل منزلَة الْمُتَوَاتر فِي أَنه ينْسَخ الْمَقْطُوع۔
تیسری بات یہ کہ حدیث ضعیف کو جب امت قبول کرے تو صحیح یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا اور وہ نص قطعی کو منسوخ کرنے میں متواتر کے درجے میں سمجھی جائے گی۔👀❤
[النکت علی مقدمة ابن الصلاح ج 01 ص 390]✍🏻📚
4. 🔑شیخ تقی الدین احمد ابن عبد الحلیم ابن تیمیہ صاحب لکھتے ہیں:💯
> فالْخَبَرُ الَّذِي تَلَقَّاهُ الْأَئِمَّةُ بِالْقَبُولِ تَصْدِيقًا لَهُ أَوْ عَمَلًا بِمُوجَبِهِ يُفِيدُ الْعِلْمَ عِنْدَ جَمَاهِيرِ الْخَلَفِ وَالسَّلَفِ وَهَذَا فِي مَعْنَى الْمُتَوَاتِرِ۔
پس وہ خبر جسے امت نے قبول کیا ہو اس کی تصدیق کر کے یا اس کے مقتضی پر عمل کر کے تو وہ جمھور ائمہ و اسلاف کے نزدیک علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہ متواتر کے معنی میں ہے۔❤
[مجموع الفتاوی جلد 18 ص 48]✍🏻📚
5. 🔑مولوی محمد بن أبي بكر ابن قیم الجوزیہ 751ھ لکھتے ہیں:💯
> وَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ لَا تَثْبُتُ مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ، وَلَكِنْ لَمَّا تَلَقَّتْهَا الْكَافَّةُ عَنْ الْكَافَّةِ غَنُوا بِصِحَّتِهَا عِنْدَهُمْ عَنْ طَلَبِ الْإِسْنَادِ لَهَا
ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں " اگر یہ احادیث سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہوتی لیکن جب امت کے گروہ مے دوسرے گروہ سے قبول کرلیا ہو تو ان کا اس حدیث کو قبول کرنا اس کی صحت کو مستغنی کردیتا ہے اس کی سند کو طلب کرنے سے"❤
[اعلام الموقعین ج 01 ص 155]📚✍🏻
6. 🔑امام عليّ بن علي بن محمد بن أبي العز الدمشقي (ت ٧٩٢ هـ) رحمه الله فرماتے ہیں:💯🫀
> وَخَبَرُ الْوَاحِدِ إِذَا تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ عَمَلًا بِهِ وَتَصْدِيقًا لَهُ -: يُفِيدُ الْعِلْمَ الْيَقِينِيَّ عِنْدَ جَمَاهِيرِ الْأُمَّةِ، وَهُوَ أَحَدُ قِسْمَيِ الْمُتَوَاتِرِ. وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ سَلَفِ الْأُمَّةِ فِي ذَلِكَ نِزَاعٌ
اور خبر واحد کو جب امت قبول کرلے اس پر عمل کر کے یا اس کی تصدیق کر کے تو جمھور امت کے نزدیک وہ خبر علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے اور یہ متواتر ہی کی ایک قسم ہے اور اس متعلق اسلاف امت میں کسی قسم کا نزاع نہیں ہے۔❤
[شرح عقيدة الطحاوية ج 02 ص 501]📚✍🏻
7. 🔑امام أبو بكر أحمد بن علي خطیب بغدادی 463ھ رحمه الله فرماتے ہیں:💯
> وَمِنْهَا: خَبَرُ الْوَاحِدِ الَّذِي تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ فَيُقْطَعُ بِصِدْقِهِ سَوَاءٌ عَمِلَ بِهِ الْكَلُّ أَوْ عَمِلَ بِهِ الْبَعْضُ.
اور علم یقین کا فائدہ دینے والوں میں وہ خبر واحد بھی ہے جسے امت نے قبول کیا ہو پس اس کا سچا ہونا قطعیت کو پہنچادیا جاتا ہے برابر ہے کہ اس پر سارے کے سارے عمل کرے یا بعض عمل کریں❤
[الفقيه و المتفقه ج 01 ص 278]✍🏻📚
8. 🔑امام أبو الحسين القدوري أحمد بن محمد البغدادي الحنفي (٤٢٨ هـ) فرماتے ہیں:💯
> ومن أصحابنا من قال: إنها نسخت بقوله ﵊: "لا وصية لوارث" (٤)، وهذا خبر تلقته الأمة بالقبول، وعملوا بموجبه، فهو في خبر ما يوجب العلم.
ہمارے اصحابِ میں سے بعض نے فرمایا کہ یہ منسوخ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں" سے اور یہ ایسی خبر ہے جسے امت نے قبول کیا ہے اور اس کے موجب پر عمل کیا ہے لہذا یہ اس خبر کے درجے میں ہے جو علم کا فائدہ دیتی ہے۔❤
[شرح مختصر الكرخي ج 01 ص 07]✍🏻📚
9. 🔑منصور بن محمد بن عبد الجبار ابن أحمد المروزى السمعاني التميمي الحنفي ثم الشافعي (ت ٤٨٩هـ) رحمه الله فرماتے ہیں:💯🫀
> وهم يقولون هذا خبر واحد لا يثبت به مثل هذا الأصل وقد قالت الأصحاب: هو خبر واحد ولكن تلقته الأمة بالقبول فصار دليلا مقطوعا به.
ایک حدیث پاک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اس سے اس اصل کی مثل ثابت نہیں ہوسکتی تو بعض اصحاب نے جواب دیا کہ خبر واحد تو ہے لیکن امت نے اسے قبول کیا ہے پس یہ اس کے قطعی ہونے کی دلیل ہے۔❤
[قواطع الادلة فى الاصول ج 02 ص 94]✍🏻📚
10. 🔑منصور بن محمد بن عبد الجبار ابن أحمد المروزى السمعاني التميمي الحنفي ثم الشافعي (ت ٤٨٩هـ) رحمه الله فرماتے ہیں:💯🫀
> وهم يقولون هذا خبر واحد لا يثبت به مثل هذا الأصل وقد قالت الأصحاب: هو خبر واحد ولكن تلقته الأمة بالقبول فصار دليلا مقطوعا به.
ایک حدیث پاک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اس سے اس اصل کی مثل ثابت نہیں ہوسکتی تو بعض اصحاب نے جواب دیا کہ خبر واحد تو ہے لیکن امت نے اسے قبول کیا ہے پس یہ اس کے قطعی ہونے کی دلیل ہے۔❤
[قواطع الادلة فى الاصول ج 02 ص 94]✍🏻📚
ان دس عبارات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ 🌺 امت اس اصول پر متفق ہے کہ اگر کسی حدیث کو امت قبول کرے تو وہی اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ 📜✨
اور پھر حدیثِ پاک "يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي" 🙏 اور ان جیسے مفہوم والی دیگر احادیث کو بھی تلقی بالقبول حاصل ہے۔ 🌟💖
اب ملاحظہ فرمائیں 👇
اپنوں اور غیروں کے حوالاجات اس متعلق کہ امت نے ان احادیث کے مضمون و مفہوم پر عمل کیا ہے۔ 📚🌷✨
اس حدیث پاک کو امت کے قبول کرنے پر 7 حوالاجات اپنے اور غیروں کی کتب سے📚💯🔥
1. 🔑شیخ الاسلام والمسلمین امام ملاء علی قاری رحمه الله فرماتے ہیں:🫀
> قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ الثِّقَاتِ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْمُسَافِرُونَ، وَرُوِيَ عَنِ الْمَشَايِخِ أَنَّهُ مُجَرَّبٌ۔
بعض ثقہ علماء نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی حاجت رہتی ہے اور مشایخ سے مروی ہے کہ یہ عمل تجربہ شرہ ہے۔❤
[مرقاۃ المفاتیح ج 04 ص 1693]✍🏻📚
2. 🔑امام أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي رحمه الله فرماتے ہیں:🫀💯
> عَنْ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " «إِذَا أَضَلَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا، أَوْ أَرَادَ عَوْنًا، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ فَلْيَقُلْ: يَا عِبَادَ اللَّهِ، أَغِيثُونِي ; فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ ". وَقَدْ جَرَّبَ ذَلِكَ»
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کر دے یا مدد چاہے، اور وہ ایسی جگہ ہو جہاں کوئی آدمی موجود نہ ہو، تو وہ کہے: یا عِبَادَ اللّٰهِ أَغِيثُونِي ’ (اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو)۔ کیونکہ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں تم نہیں دیکھتے۔”💯
پھر فرماتے ہیں: قد جرب ذلک تحقیق اس عمل کا تجربہ کیا گیا ہے۔🌹
[مجمع الزوائد و منبع الفوائد ج 10 ص 132]📚✍🏻
3. 🔑امام سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني رحمه الله یہی حدیث پاک سند سے لکھ کر فرماتے ہیں:💯🫀
قد جرب ذلک (تحقیق اس عمل کا تجربہ کیا گیا ہے)🌹
[معجم الکبیر للطبرانی ج 17 ص 117]✍🏻📚
4. 🔑امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (ت ٦٧٦ هـ) رحمه الله فرماتے ہیں:🌹💯
> وَكُنتُ أنا مَرَّةً مَعَ جَمَاعَةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُمْ بَهِيمَةٌ، وَعَجَزُوا عَنْهَا، فَقُلْتُهُ، فَوَقَفَتْ فِي الْحَالِ بِغَيْرِ سَبَبٍ سِوَى هَذَا الْكَلَامِ.
میں ایک مرتبہ ایک جماعت کے ساتھ تھا تو ان کے پاس سے ایک جانور بھاگ گیا، اور وہ اسے پکڑنے سے عاجز آگئے۔ میں نے یہ (کلمات) کہے، تو وہ جانور فوراً رک گیا — اس بات کے سوا کوئی سبب نہ تھا۔❤💯
[الاذکار للنووی ص 224]📚✍🏻
5. 🔑امام اہل سنت حضرت امام احمد ابن حمبل رحمه الله سے ان کے شھزادے روایت کرتے ہیں: 💯🫀
> حججْت خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق اَوْ كَمَا قَالَ ابي۔
میں نے پانچ حج کیے، جن میں سے دو سواری پر اور تین پیدل کیے، یا دو پیدل اور تین سواری پر — (یعنی راوی کو یقین نہیں رہا کہ ترتیب کیا تھی)۔ ایک حج میں میں راستہ بھول گیا، اور اس وقت پیدل تھا۔ تو میں کہنے لگا: "اے اللہ کے بندو! ہمیں راستہ دکھاؤ" میں یہ بات بار بار کہتا رہا، یہاں تک کہ میں راستے پر پہنچ گیا۔ (یا جیسا کہ میرے والد نے بیان کیا۔)❤
[مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله ص 245]✍🏻📚
6. 🔑اسی روایت کے بارے میں ناصر الدین البانی صاحب لکھتے ہیں:💯
> ھذا، ويبدو أن حديث ابن عباس الذي حسنه الحافظ كان الإمام أحمد يقويه، لأنه قد عمل به۔
اور ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جسے حافظ (ابن حجر) نے حسن قرار دیا ہے، امام احمد بھی اسے قوی (مضبوط) سمجھتے تھے، کیونکہ انہوں نے اسی پر عمل کیا ہے۔❤
[سلسلة الاحاديث الضعيفة ج 02 ص 111]✍🏻📚
7. 🔑غیر مقلد عالم قاضی شوکانی صاحب لکھتے ہیں:
> قلت كنت مرة فى سفر من بلد مرزا پور الى جبلپور من بلاد الهند فوقع المركب الذى عليه فى جدول والجدول فى الطغيان و كدت اغرق فيه مع المركب و كان هذا الحديث على ذكر منى فقلت هذا الكلام فوقف المركب فى الحال علة حجارة عظيمة كانت فى ذلك الجدول بعد ان سال على موج الماء و نجوت من الغرق.
ایک بار میں ہندوستان کے علاقے مرزا پور سے جبل پور کے سفر میں تھا، تو وہ سواری جس پر میں سوار تھا، ایک نالے میں جا گری، اور وہ نالہ طغیانی (سیلاب) کی حالت میں تھا۔ میں سواری سمیت ڈوبنے کے قریب ہو گیا۔ اسی وقت یہ حدیث میرے ذہن میں آئی، تو میں نے وہ کلمات کہے (یعنی: يا عبادَ اللهِ أَغيثوني)۔ پھر سواری فوراً رک گئی — ایک بڑے پتھر پر جو اس نالے میں موجود تھا، حالانکہ پانی کی موجوں پر بہہ چکی تھی، اور میں غرق ہونے سے بچ گیا۔❤
[نزل الابرار صفحہ 335]📚✍🏻
----
علماء حرمین شریفین سے "عباد الله" كی تشریح👇🏻🫀
الحمد اللہ عزوجل ان عبارات سے واضح ہوا کہ کئی علماء نے اس حدیث پاک کو قبول کیا ہے جن میں امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے لے کر غیروں کے اکابر بھی داخل ہیں۔💯
اب اس حدیث پاک میں "یاعباد الله" سے مراد کون ہیں اس بارے وہابیوں کے نزدیک مجدد وقت شیخ الاسلام امام ملاء علی قاری مکی ھروی ١٠١٤ھ رحمه الله فرماتے ہیں:💯👀
> المراد بهم الملائكة، أو المسلمون من الجن، أو رجال [الغيب] (٢) المسمّون بالأبدال
ان سے مراد فرشتے ہیں یا مسلمان جن ہیں یا رجال غیب ہیں جنہیں ابدال بھی کہا جاتا ہے۔💯
[الحرز الثمين للحصن الحصين ج 02 ص 933]📚✍🏻
اور یہی بات امام محمد بن علان صدیقی شافعی اشعری مکی 1057ھ رحمه الله نے تائیدًا نقل فرمائی یے:🌹❤
> (يا عباد الله) قال في الحرز المراد بهم الملائكة أو المسلمون من الجن أو رجال الغيب المسمون بالأبدال
"الحرز" میں کہا ہے کہ "عباد" سے مراد فرشتے ہیں یا مسلمان جن یا رجال غیب ہیں جنہیں ابدال کہا جاتا یے۔💯
[الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية ج 05 ص 151]✍🏻📚
یہ مکہ والوں کا وہ عقیدہ 🌹 تھا جو اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کی ولادت سے قبل ہی مکہ پاک کی گلیوں میں رائج تھا ، اور یہ بات خود گواہی دے رہی ہے کہ اُس وقت وہاں اہلِ سنت آباد تھے۔ 🕋✨
یہ عقیدہ بریلی سے نہیں نکلا بلکہ اہلِ سنت و جماعت نے اسے دل سے قبول کیا تھا۔ 💖📜
پھر اُس وقت کے کسی عالمِ دین نے ان حضرات کی اس تشریح پر طعن و اعتراض نہیں کیا کہ🙃
> “تم تو مشرک ہوگئے غیراللہ کو مدد کے لیے پکار کر!” 🚫
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر اعتراضات بعد میں شروع ہوئے۔ ⏳
اور اُس زمانے میں ان اعتراضات کا وجود ہی نہ ہونا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اُس وقت مکہ کے کسی بھی عالمِ دین کے نزدیک یہ عمل شرک و کفر نہ تھا۔ 🌺📖✨
اس حدیثِ پاک 🌹 میں واضح دلیل موجود ہے کہ اسباب سے ہٹ کر بھی غیرِ اللہ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ 📖✨
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے 🤲
کہ ہمیں اسلام پر ثابت قدم رکھے، 🌙
اور دورِ حاضر کے فتنوں سے ہم سب کی، ہمارے گھر والوں کی حفاظت فرمائے۔ 🏠💖
Huzor ﷺ Ki Qabar Mubarak Per imam Bukhari Ke Ustad Ka Madad Mangana
امام بخاری کے استاد حضور ﷺکی قبرمبارک پر حضور سے مدد طلب کرتے تھے
imam Bukhari Raḥimahullah ke Ustad Aur Siqah Muhaddis, Farmate Hain
وقال مصعب بن عبد الله: حدثني إسماعيل بن يعقوب التيمي، قال:كان ابن المنكدر يجلس مع أصحابه، فكان يصيبه صمات، فكان يقوم كما هو حتى يضع خده على قبر النبي صلى الله عليه وسلم ثم يرجع.فعوتب في ذلك، فقال: إنه يصيبني خطر، فإذا وجدت ذلك، استعنت بقبر النبي صلى الله عليه وسلم.
➖➖➖➖➖➖➖➖
imam Muhammad bin Munkadir raḥimahullah farmaate hain:
“Mujh Par jab Bhi Bemari Ka Khadsha Hota Hai to Main Huzoor ﷺ ki Qabr-e-Anwar Par Apna Chahera Rakh kar Huzoor Se isti‘anat ya‘ni (Rasool Allah ﷺ se Madad Talab Karta Hoon).”
📗Seer A‘lam an-Nubala,
📚 Vol 5,
📋Page 358,359
➖➖➖➖➖➖
امام محمد بن منکدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مجھ پر جب بھی بیماری کا خدشہ ہوتا ہے تو میں حضور ﷺ کی قبرِ انور پر اپنا چہرہ رکھ کر حضور ﷺ سے استعانت یعنی رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرتا ہوں۔"
📗 سیر أعلام النبلاء
📚 جلد ۵
📋 صفحہ ۳۵۸، ۳۵۹
غیر مقلد عالم قاضی شوکانی صاحب لکھتے ہیں:
> قلت كنت مرة فى سفر من بلد مرزا پور الى جبلپور من بلاد الهند فوقع المركب الذى عليه فى جدول والجدول فى الطغيان و كدت اغرق فيه مع المركب و كان هذا الحديث على ذكر منى فقلت هذا الكلام فوقف المركب فى الحال علة حجارة عظيمة كانت فى ذلك الجدول بعد ان سال على موج الماء و نجوت من الغرق.
ایک بار میں ہندوستان کے علاقے مرزا پور سے جبل پور کے سفر میں تھا، تو وہ سواری جس پر میں سوار تھا، ایک نالے میں جا گری، اور وہ نالہ طغیانی (سیلاب) کی حالت میں تھا۔ میں سواری سمیت ڈوبنے کے قریب ہو گیا۔ اسی وقت یہ حدیث میرے ذہن میں آئی، تو میں نے وہ کلمات کہے (یعنی: يا عبادَ اللهِ أَغيثوني)۔ پھر سواری فوراً رک گئی — ایک بڑے پتھر پر جو اس نالے میں موجود تھا، حالانکہ پانی کی موجوں پر بہہ چکی تھی، اور میں غرق ہونے سے بچ گیا۔❤
[نزل الابرار صفحہ 335]
یا مرتضی کہہ کر رسول اللہ ﷺ کو پکارا تھانوی صا حب نے
آمین بجاہِ النبی الأمین

























0 Comments