صحیح البخاری میں جو حدیث ہے کہ میں بندے کا کان بن جاتا ہوں جس وہ سنتا ہے ۔
یہ والی حدیث کی جو تشریح امام رازی نے کی تھی اس کا سکین
“...ولا يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به...”(صحیح بخاری: 6502)
اب امام رازی نے اس حدیث کو عقلی اور روحانی انداز میں یوں واضح کیا ہے:
🔹 مفہومِ عبارت (تشریح):
امام رازی فرماتے ہیں کہ:
-
جب بندہ اطاعت میں بڑھتا ہے تو وہ قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے، اور جب وہ گناہوں میں پڑتا ہے تو بعد (دوری) میں چلا جاتا ہے۔
-
قرب سے مراد یہ نہیں کہ اللہ مکانی طور پر قریب ہو جاتا ہے، بلکہ یہ نورِ الٰہی کے تجلیات کا بندے کے دل میں ظہور ہے۔
-
اسی کیفیت کی وضاحت اس حدیثِ قدسی میں ہے: “كنت سمعه الذي يسمع به...” یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو ایسا نور عطا کرتا ہے جس کے ذریعے وہ حق کو پہچانتا ہے، درست کو غلط سے جدا کرتا ہے۔
-
اس مقام پر بندہ اپنی ذات، قوت، یا حواس سے نہیں بلکہ الٰہی تأیید اور نور سے سنتا اور دیکھتا ہے۔
-
یہ قرب روحانی ہے، جسمانی نہیں۔ گویا بندہ اتنا فنا فی اللہ ہو جاتا ہے کہ اس کے تمام اعمال الٰہی مرضی کے تابع ہو جاتے ہیں۔


0 Comments