بد مذہب سے کیسے بات کریں؟؟👇🏻
تابعی بزرگ حضرت ایوب سختیانی علیہ رحمہ کے پاس باطل فرقے کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا کے
"مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے"
حضرت نے فرمایا
نہیں! آدھی بھی نہیں
بظاہر یہ روایت سن کر ایک ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اہلِ باطل سے گفتگو ہی نہ کی جائے تو حق کی تبلیغ، ردِ باطل اور اتمامِ حجت کیسے ہوگی؟
لیکن دراصل حضرت ایوب سختیانی علیہ الرحمہ کا یہ طرزِ عمل ہر ایک کے لیے نہیں بلکہ خاص حال اور خاص نوعیت کے لوگوں کے لیے تھا۔ اس کے چند پہلو سمجھنے ضروری ہیں
ایوب سختیانی علیہ الرحمہ کا یہ قول اُن "بدعتیوں" کے بارے میں تھا جو
ضدی اور ہٹ دھرم تھے،
دلیل سے منقلب ہونے والے نہیں تھے،
بلکہ صرف شبہات پھیلانے اور سادہ لوحوں کو گمراہ کرنے کے ارادے سے گفتگو کرتے تھے۔
ایسے لوگوں سے قرآن نے بھی روکا ہے:
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ
ترجمہ:
اور اے سننے والے! جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں بیہودہ گفتگو کرتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے
(انعام آیت 68)
بد مذہب سے کیسے بات کریں؟ | حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا واقعہ
تحریر کا مقصد:
آج کے دور میں ہر شخص خود کو حق پر سمجھتا ہے۔ سوشل میڈیا، مناظرے، یوٹیوب پر مذہبی بحثیں — سب کے سب ایک ہی جال میں پھنسے ہیں: "میں درست، باقی غلط"۔
لیکن ہمارے اسلاف نے اس رویے سے بالکل الٹا راستہ اختیار کیا۔
حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا واقعہ
ایک دن ایک باطل فرقے کا شخص حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ کے پاس آیا اور کہنے لگا:
“مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔”
حضرت نے فوراً فرمایا:
“نہیں! آدھی بھی نہیں!” 💪🏻
یہ صرف غصہ نہیں تھا — یہ عقیدے کی حفاظت تھی۔
ایوب سختیانی جانتے تھے کہ بد مذہب سے گفتگو اکثر علم نہیں، شک پیدا کرتی ہے۔
جو شخص حق کو پہچان چکا ہو، اسے اب ہر غلط بات سننے کی ضرورت نہیں۔
قرآن و سنت کا اصول
قرآن مجید میں واضح حکم ہے:
“وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ”
(الأنعام: 68)
یعنی جب تم دیکھو کہ لوگ اللہ کی آیات میں کج بحثی کر رہے ہیں، تو ان سے منہ موڑ لو۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا:
“عن أبي أمامة قال: ما ضلّ قوم بعد هدى كانوا عليه إلا أوتوا الجدل.”
(سنن الترمذي 3253)
یعنی جو قوم ہدایت کے بعد گمراہ ہوئی، وہ بحث و جدل میں پڑ گئی۔
اسلاف کا طرزِ عمل
-
امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے:
“میں ہر بدعتی سے نہیں ملتا، کیونکہ دل کمزور ہے اور دین قیمتی۔”
-
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا:
“بدعتی سے گفتگو دل میں بیماری ڈال دیتی ہے۔”

بات کرنے کا اصول
-
جہاں بات فائدہ دے، وہاں بات کرو۔
اگر سامنے والا سیکھنا چاہتا ہے تو دلیل دو، مگر اگر وہ صرف بحث چاہتا ہے تو خاموشی اختیار کرو۔ -
باطل کو رد کرو، باطل والے کو مت بڑھاؤ۔
جتنا اسے جواب دو گے، اتنا وہ اپنی بات کو نمایاں کرے گا۔ -
علم کا مقصد فتح نہیں، حق ہے۔
اگر تمہیں مناظرہ جیتنے کی فکر زیادہ ہے تو تم خود اس بیماری کا حصہ بن چکے ہو۔
خلاصہ
حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا “نہیں، آدھی بھی نہیں” صرف ایک جملہ نہیں، امت کے لیے اصول ہے۔
باطل سے بات اس وقت کرو جب تمہیں یقین ہو کہ وہ تمہیں متاثر نہیں کر سکتا۔
ورنہ دین کی حفاظت خاموشی سے کرو، بحث سے نہیں۔
بد مذہب سے کیسے بات کریں؟ حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا واقعہ اور قرآن و سنت کے اصول کے مطابق بدعتی یا باطل فرقوں سے گفتگو کا اسلامی طریقہ۔ ایمان کی حفاظت کے لیے علمائے تابعین کی حکمت۔
بد مذہب سے بات, ایوب سختیانی واقعہ, باطل فرقہ, مناظرہ, اہل بدعت, اسلامی عقیدہ, حق و باطل, ایمان کی حفاظت, قرآن کا اصول, اہل سنت کا موقف



0 Comments