قرآن سے ثبوت:
سلیمانؑ اور ما فوق الاسباب مدد
قرآنِ مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ (سورۃ
النمل، آیات 38–40)
مدد، تصرف، علمِ غیب اور ما فوق الاسباب قوت کے بارے میں ایک
زبردست مثال ہے۔
اس واقعہ سے کئی عقلی و ایمانی اصول واضح ہوتے ہیں۔
⸻
🔹 1. سلیمانؑ نے مدد مانگی — جنّات
سے، جو غائب تھے
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي
بِعَرْشِهَا
“سلیمانؑ نے کہا:
اے درباریو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لاتا ہے؟”
📖 (النمل: 38)
🔸 تشریح:
یہ مدد کی طلب تھی — اور یہ طلب جنّات (غائب مخلوق)، شیطانوں
(غائب مخلوق) اور انسانوں (حاضر مخلوق) سے تھی۔
گویا مدد صرف ظاہری و حاضری تک محدود نہیں؛
بلکہ سلیمانؑ نے غیرِ حاضر مخلوقات سے بھی مدد طلب کی۔
⸻
🔹 2. جنّات اور انسان دونوں نے مدد
کی استطاعت ظاہر کی
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ
“ایک جن بولا: میں
وہ تخت لا دیتا ہوں۔”
📖 (النمل: 39)
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ
بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ
“اس نے کہا جس کے
پاس کتاب کا علم تھا: میں وہ تخت آپ کے پاس لا دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی پلک
جھپکے۔”
📖 (النمل: 40)
🔸 تشریح:
یہاں دو مختلف مخلوقات نے ما فوق الاسباب امداد کی پیشکش کی —
ایک جنّ (غائب)، دوسرا انسان (ابن برخیا)۔
قرآن نے اس کو شرک یا ناجائز مدد نہیں کہا،
بلکہ اسے فضلِ الٰہی کا مظہر قرار دیا۔
⸻
🔹 3. ابن برخیا کی ما فوق الاسباب
مدد
آپ نے فرمایا:
“ابن برخیہ نے ما
فوق الاسباب مدد کر بھی ڈالئ”
بالکل درست —
قرآن کہتا ہے:
فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ
رَبِّي
“جب سلیمانؑ نے
دیکھا کہ تخت ان کے پاس موجود ہے تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔”
📖 (النمل: 40)
🔹 تشریح:
یہاں تین بنیادی نکات واضح ہوئے:
⸻
(۱) ابن برخیا کو جزوی علمِ غیب تھا
کیونکہ اس نے تخت کا مقام جانا — اور پلک جھپکنے سے پہلے وہاں
سے اٹھا لایا۔
یہ علم و ادراک عام انسانی اسباب سے بالاتر تھا، مگر عطائے
الٰہی سے تھا۔
⸻
(۲) ابن برخیا کو قدرتِ تصرف ملی تھی
تخت کو لمبے ہاتھ بڑھائے بغیر، لمحے میں حاضر کر دینا
اس بات کی علامت ہے کہ اسے کائناتی نظام پر تصرف کی طاقت اللہ
نے عطا فرمائی تھی۔
⸻
(۳) جو پلک جھپکنے میں تخت لا سکتا ہے، وہ آواز سن بھی
سکتا ہے
ایک سیکنڈ سے کم وقت میں تخت اٹھانا
سننے، پہچاننے اور عمل کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
لہٰذا جس کے پاس اتنی طاقت ہے،
وہ سماع و ادراک کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔
⸻
🔹 4. صاحبِ کرامت سے مدد مانگنا
ناجائز نہیں
“جو مدد کر سکتا
ہو صاحبِ کرامت ہو،
اس سے مدد مانگنا ناجائز نہیں۔
جیسے ڈاکٹر مدد کر سکتا ہے تو ہم اُس سے علاج کا کہتے ہیں۔
اصول یہی ہے: جو صاحبِ استطاعت ہو، اسی سے مانگا جائے گا نہ
کہ غیر سے۔”
🔸 تشریح:
یہ بالکل وہی اصول ہے جو قرآن نے بیان کیا —
اللہ مؤثرِ حقیقی ہے، بندے اسباب یا مظاہر ہیں۔
نبی، ولی، یا عالم اگر اللہ کی عطا سے مدد کر سکتے ہوں،
تو ان سے مدد طلب کرنا شرک نہیں بلکہ توکل کے نظام کا حصہ ہے۔
⸻
🔹 5. سلیمانؑ کا قول: مدد اللہ کی
ہی ہے
هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي
“یہ میرے رب کا
فضل ہے۔”
📖 (النمل: 40)
🔸 تشریح:
یہ عقیدۂ توحید کا خلاصہ ہے:
مدد بالذات اللہ کی ہے،
مگر بالواسطہ مظہر بندہ ہو سکتا ہے۔
یہی توازن شرک سے بچاتا اور کرامت کو تسلیم کرتا ہے۔
⸻
🔹 6. “حاضر سے مدد جائز، غائب سے
ناجائز” — یہ اصول کہاں سے؟
“جب حاضر میں
مانگنا شرک نہیں تو غائب میں مانگنا کے لیے الگ سے دلیل چاہیے ہوگی۔
شرک کی ایسی حقیقت قرآن و حدیث میں دیکھا دے کہ شرک ظاہر میں
مانگو تو نہیں،
ہاں غائب میں مانگ لو تو شرک ہے۔
ایسا ڈرامہ تو دین کے ساتھ ابولہب و فرعون بھی نہ کر پائے جو
بعض مولوی حضرات نے کیا!”
🔸 تشریح:
قرآن میں شرک کی تعریف “اللہ کے ساتھ کسی کو مستقل مؤثر
ماننا” ہے —
نہ کہ “مدد حاضر سے مانگنے یا غائب سے مانگنے” پر۔
یہ تقسیم قرآن، حدیث یا سلف میں کہیں موجود نہیں۔
لہٰذا فاصلے یا حالتِ غیبت سے مدد مانگنے کو شرک کہنا
بلا دلیل اور غیر قرآنی تقسیم ہے۔
⸻
🔹 7. اگر بندہ مدد کر سکتا ہے تو
اس سے مدد مانگنا کیسے ناجائز؟
“جب امداد بندہ کر
سکتا ہے ہر طرح کی — ما فوق الاسباب یا تحت الاسباب —
تو اس سے مانگنا کیسے ناجائز ہے غائب میں یا حاضر میں؟”
🔸 تشریح:
بالکل قرآن اسی کو بیان کرتا ہے:
جنّ، انسان، فرشتے — سب اللہ کے حکم سے مدد کر سکتے ہیں۔
حرام صرف یہ ہے کہ ان کو مستقل طاقت کا مالک مانا جائے۔
اگر مدد کا عقیدہ باللہ، من اللہ، باذن اللہ ہے —
تو وہ عینِ توحید ہے۔
⸻
🔹 8. سماعت و ادراک کا مسئلہ
“جو بندہ مشرق میں
بیٹھ کر آپ کے سامنے ظاہر طور پر مغرب سے کچھ لا سکتا ہے —
یہ طاقت اس کے پاس ہے۔
اور آپ مغرب میں ہوں تو آپ اس کو آواز دو، وہ نہیں سنے گا
کیا؟”
🔸 تشریح:
قرآن و سنت میں “سماعِ عطائی” ممکن ہے —
یعنی اللہ جسے چاہے دور کی بات سننے کی قدرت دے دے۔
جیسے فرشتے، جنّات اور انبیاء علیہم السلام کو۔
لہٰذا ایسے بندے سے مدد طلب کرنا
اللہ کے دیے ہوئے دائرے میں ممکن اور مشروع ہے۔
🌿 دلیل نمبر 1
غائب سے سماعت و امداد — واقعہ آصف بن برخیا اور ساریہ رضی
اللہ عنہ کی روشنی میں
⸻
🔹 مقدمہ:
قرآنِ مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کا واقعہ
(سورۃ النمل: 38–40)
“ما فوق الاسباب
مدد” کے تصور پر روشنی ڈالتا ہے۔
اس واقعے میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آصف بن برخیا کو ایسی
قدرت عطا فرمائی تھی
کہ وہ بلقیس کا تخت یمن سے فلسطین تک “پلک جھپکنے سے پہلے” لا
سکتے تھے۔
⸻
🕋 1. قرآنی دلیل
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ
بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ
“جس کے پاس کتاب
کا علم تھا، اس نے کہا: میں وہ تخت آپ کے پاس لاتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ کی پلک
جھپکے۔”
📖 (النمل: 40)
یہ واقعہ قرآنِ مجید کی نصّ قطعی سے ثابت ہے۔
یہاں دو باتیں نمایاں ہیں:
1️⃣ آصف بن برخیا نے “غائب” مقام (یمن) سے تخت لایا۔
2️⃣ یہ عمل ما فوق الاسباب تھا — نہ جسمانی نقل و حمل،
نہ فاصلہ، نہ وقت۔
⸻
🌿 2. عقلی نتیجہ: سماعت کی قوت
امداد سے کم نہیں
آپ نے درست فرمایا:
“اگر آصف بن برخیہ
یمن سے تخت لا سکتا ہے تو یمن سے دی گئی آواز بھی سن سکتا ہے۔”
یہ نکتہ عقلی و منطقی لحاظ سے لازم ہے، کیونکہ:
• جسمانی طاقت سے
زیادہ نازک اور تیز عمل “سماعت” ہے۔
• جب ایک بندہ اللہ
کے اذن سے مادی فاصلہ ختم کر کے تخت منتقل کر سکتا ہے،
تو وہ اسی فاصلے سے آواز سننا یقیناً اس کے لیے آسان تر ہے۔
قرآن میں اس کی نفی نہیں، بلکہ اثباتِ تصرف کا ثبوت موجود ہے۔
⸻
🌿 3. سماعتِ غیب کی تائید: واقعہ
“ساریہ الجبل”
یہ واقعہ مشکوٰۃ المصابیح (حدیث 3794) میں منقول ہے:
أن عمرَ بن الخطابِ رضي الله عنه كان يخطبُ يومَ الجمعةِ،
فقال في أثناءِ خطبتِه: يا ساريةُ الجبلَ، الجبلَ!
“حضرت عمرؓ جمعہ
کے خطبے میں تھے کہ اچانک فرمایا: اے ساریہ! پہاڑ کی طرف! پہاڑ کی طرف!”
روایت کے مطابق حضرت ساریہؓ (جو میدانِ جہاد میں ایران کے
قریب تھے)
نے یہ آواز سنی اور پہاڑ کے قریب ہو گئے، جس سے لشکر محفوظ ہو
گیا۔
🔹 اگرچہ سند پر کلام ہے،
لیکن یہ واقعہ تاریخ و تفاسیر میں بطور تائیدی شہادت ذکر کیا
گیا ہے،
اور ائمہ نے اسے کرامت و تصرف کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
📚 حوالہ:
• مشکوٰۃ المصابیح،
حدیث 3794
• البدایہ والنہایہ
(ابن کثیر، ج 7، ص 131)
• فتح الباری (ابن
حجر، ج 6، ص 82)
⸻
🌿 4. اصولی نکتہ: صاحبِ استطاعت سے
مدد مانگنا جائز
“جو مدد کر سکتا
ہو، اس سے مدد مانگنا شرک نہیں،
کیونکہ مدد اللہ کے اذن سے ہوتی ہے، بندہ صرف مظہر ہے۔”
اسی اصول کے تحت:
• مریض ڈاکٹر سے
علاج مانگتا ہے،
• شاگرد استاد سے
علم مانگتا ہے،
• اور ولی یا نبی،
جنہیں اللہ نے قدرتِ تصرف عطا کی ہو
ان سے روحانی یا ما فوق الاسباب امداد مانگنا عقلاً و نقلاً
جائز ہے
،
🌿 دلیل نمبر 2
قمیصِ یوسف علیہ السلام سے شفاء اور بعد الوفات مدد کی مشروعیت
⸻
🔹 مقدمہ:
قرآنِ مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کا واقعہ
“غیر اللہ کے وسیلے سے امداد اور شفاء” کے مسئلہ میں نہایت واضح دلیل ہے۔
یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جمادات یا غائب اشیاء اگر اللہ کے نبی سے منسوب ہوں،
تو ان سے شفاء و برکت طلب کرنا شرک نہیں، بلکہ اذنِ الٰہی سے سنتِ انبیاء ہے۔
⸻
🕋 1. قرآنی دلیل: قمیصِ یوسف سے شفاء
اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا
“میری یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے چہرے پر ڈال دو، ان کی بینائی واپس آجائے گی۔”
📖 (سورۃ یوسف: 93)
اور آگے فرمایا گیا:
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا
“جب خوشخبری لانے والے نے قمیص ان کے چہرے پر ڈالی، ان کی بینائی لوٹ آئی۔”
📖 (یوسف: 96)
⸻
🌿 2. تجزیہ و نکات
نکتہ
توضیح
1️⃣ قمیص جماد ہے
نہ سن سکتی، نہ بول سکتی، نہ ارادہ رکھتی — صرف نسبتِ نبی کی برکت سے مؤثر ہوئی۔
2️⃣ یوسف علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگنے کے بجائے سبب اختیار کیا
سیدھا قمیص بھیجنا ظاہر کرتا ہے کہ نسبتِ نبی بذاتِ خود سببِ شفاء ہو سکتی ہے۔
3️⃣ یعقوب علیہ السلام نے انکار نہیں کیا
اگر یہ شرک یا بدعت ہوتی تو فوراً رد فرماتے، بلکہ خود عمل کر کے شفاء پائی۔
4️⃣ ان کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ “شفاء قمیص سے ہوگی”
اور اللہ نے اسی ذریعہ سے شفاء دی — اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے وسیلہ سے اثر ماننا شرک نہیں
4. صحابہ و تابعین کے آثار سے تائید
قرآن کے بعد یہ مسئلہ صحابہ کرام کے آثار سے مزید واضح ہوتا ہے:
❤ (1) ابن عباس رضی اللہ عنہ
📖 الادب المفرد للبخاری (حدیث: 964)
“ان کا پاؤں سن ہوگیا تو کہا: يا محمداه، فوراً درست ہوگیا۔”
یہ صریح دلیل ہے کہ نامِ نبی سے مدد طلب کرنا جائز سمجھا گیا۔
⸻
❤ (2) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
📖 البدایہ والنہایہ (ابن کثیر، ج 6، ص 324)
“یمامہ میں شکست کے وقت خالدؓ نے مدینہ کی طرف منہ کر کے پکارا:
يا محمداه، يا نصر الله!”
یہ “بعد الوفات توسل و استغاثہ” کی عملی مثال ہے۔
⸻
❤ (3) نبی ﷺ کی سماعتِ بعید
📖 شعب الایمان للبیہقی (3/491)
“نبی ﷺ سلام سن کر کرنے والے کا جواب دیتے ہیں، خواہ قریب ہو یا دور،
یعنی دور سے صدا سننا اور جواب دینا نبی ﷺ کے حق میں نصوص سے ثابت ہے۔
⸻
❤ (4) دعا عثمان غنی رض کے زمانہ میں
📖 ابن ماجہ و طبرانی —
“یامحمد، إنی أتوجہ بک إلی ربی…”
(اے محمد ﷺ! میں آپ کی توجہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔)
اشرف تھانویؒ نے نشر الطیب میں اس کو بعد وفات توسل کی دلیل قرار دیا۔
⸻
❤ (5) بلال بن حارث المزنی رضی اللہ عنہ
📖 مصنف ابن ابی شیبہ (حدیث 32538)
“اے رسول اللہ ﷺ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے، وہ ہلاک ہو گئی ہے۔”
امام ابن حجر نے فرمایا: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
⸻
❤ (6) “يا عباد الله أغيثوني”
📖 مجمع الزوائد (10/132)، شعب الایمان، امام نووی نے بھی نقل کیا —
نبی ﷺ نے فرمایا: “جب تم جنگل یا وادی میں ہو اور راستہ کھو جاؤ تو کہو يا عباد الله أغيثوني (اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو)”
یہ حکم غائب مدد کے لیے پکارنے پر نبی ﷺ کی تصریح ہے۔
⸻
❤ (7) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
📖 وفاء الوفاء (ابن جوزی)، دارمی (1/56)
“لوگ بارش کے لیے قبرِ نبوی ﷺ کے پاس آتے تھے،
حضرت عائشہ نے فرمایا: قبر سے بارش طلب کرو، اللہ تمہیں سیراب کرے گا۔”
⸻
❤ (8) اعرابی کا قبرِ انور پر فریاد کرنا
📖 المغنی لابن قدامہ، وفاء الوفاء، دلائل النبوۃ
“ایک اعرابی آیا، قبرِ نبوی ﷺ پر عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ، میں نے گناہ کیے ہیں،
آپ کے پاس آیا ہوں کہ میرے لیے استغفار فرمائیں،
ابن قدامہ نے لکھا: فَغُفِرَ لَهُ — پس فوراً اس کی حاجت پوری ہوئی۔”
⸻
❤ (9) حضرت ابو الخیر کا واقعہ
📖 صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی
“انہوں نے قبرِ نبوی ﷺ پر التجاء کی تو اللہ نے فوراً رزق عطا فرمایا۔”
قرآن سے ثبوت:
سلیمانؑ اور ما فوق الاسباب مدد
قرآنِ مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ (سورۃ
النمل، آیات 38–40)
مدد، تصرف، علمِ غیب اور ما فوق الاسباب قوت کے بارے میں ایک
زبردست مثال ہے۔
اس واقعہ سے کئی عقلی و ایمانی اصول واضح ہوتے ہیں۔
⸻
🔹 1. سلیمانؑ نے مدد مانگی — جنّات
سے، جو غائب تھے
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي
بِعَرْشِهَا
“سلیمانؑ نے کہا:
اے درباریو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لاتا ہے؟”
📖 (النمل: 38)
🔸 تشریح:
یہ مدد کی طلب تھی — اور یہ طلب جنّات (غائب مخلوق)، شیطانوں
(غائب مخلوق) اور انسانوں (حاضر مخلوق) سے تھی۔
گویا مدد صرف ظاہری و حاضری تک محدود نہیں؛
بلکہ سلیمانؑ نے غیرِ حاضر مخلوقات سے بھی مدد طلب کی۔
⸻
🔹 2. جنّات اور انسان دونوں نے مدد
کی استطاعت ظاہر کی
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ
“ایک جن بولا: میں
وہ تخت لا دیتا ہوں۔”
📖 (النمل: 39)
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ
بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ
“اس نے کہا جس کے
پاس کتاب کا علم تھا: میں وہ تخت آپ کے پاس لا دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی پلک
جھپکے۔”
📖 (النمل: 40)
🔸 تشریح:
یہاں دو مختلف مخلوقات نے ما فوق الاسباب امداد کی پیشکش کی —
ایک جنّ (غائب)، دوسرا انسان (ابن برخیا)۔
قرآن نے اس کو شرک یا ناجائز مدد نہیں کہا،
بلکہ اسے فضلِ الٰہی کا مظہر قرار دیا۔
⸻
🔹 3. ابن برخیا کی ما فوق الاسباب
مدد
آپ نے فرمایا:
“ابن برخیہ نے ما
فوق الاسباب مدد کر بھی ڈالئ”
بالکل درست —
قرآن کہتا ہے:
فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ
رَبِّي
“جب سلیمانؑ نے
دیکھا کہ تخت ان کے پاس موجود ہے تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔”
📖 (النمل: 40)
🔹 تشریح:
یہاں تین بنیادی نکات واضح ہوئے:
⸻
(۱) ابن برخیا کو جزوی علمِ غیب تھا
کیونکہ اس نے تخت کا مقام جانا — اور پلک جھپکنے سے پہلے وہاں
سے اٹھا لایا۔
یہ علم و ادراک عام انسانی اسباب سے بالاتر تھا، مگر عطائے
الٰہی سے تھا۔
⸻
(۲) ابن برخیا کو قدرتِ تصرف ملی تھی
تخت کو لمبے ہاتھ بڑھائے بغیر، لمحے میں حاضر کر دینا
اس بات کی علامت ہے کہ اسے کائناتی نظام پر تصرف کی طاقت اللہ
نے عطا فرمائی تھی۔
⸻
(۳) جو پلک جھپکنے میں تخت لا سکتا ہے، وہ آواز سن بھی
سکتا ہے
ایک سیکنڈ سے کم وقت میں تخت اٹھانا
سننے، پہچاننے اور عمل کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
لہٰذا جس کے پاس اتنی طاقت ہے،
وہ سماع و ادراک کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔
⸻
🔹 4. صاحبِ کرامت سے مدد مانگنا
ناجائز نہیں
“جو مدد کر سکتا
ہو صاحبِ کرامت ہو،
اس سے مدد مانگنا ناجائز نہیں۔
جیسے ڈاکٹر مدد کر سکتا ہے تو ہم اُس سے علاج کا کہتے ہیں۔
اصول یہی ہے: جو صاحبِ استطاعت ہو، اسی سے مانگا جائے گا نہ
کہ غیر سے۔”
🔸 تشریح:
یہ بالکل وہی اصول ہے جو قرآن نے بیان کیا —
اللہ مؤثرِ حقیقی ہے، بندے اسباب یا مظاہر ہیں۔
نبی، ولی، یا عالم اگر اللہ کی عطا سے مدد کر سکتے ہوں،
تو ان سے مدد طلب کرنا شرک نہیں بلکہ توکل کے نظام کا حصہ ہے۔
⸻
🔹 5. سلیمانؑ کا قول: مدد اللہ کی
ہی ہے
هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي
“یہ میرے رب کا
فضل ہے۔”
📖 (النمل: 40)
🔸 تشریح:
یہ عقیدۂ توحید کا خلاصہ ہے:
مدد بالذات اللہ کی ہے،
مگر بالواسطہ مظہر بندہ ہو سکتا ہے۔
یہی توازن شرک سے بچاتا اور کرامت کو تسلیم کرتا ہے۔
⸻
🔹 6. “حاضر سے مدد جائز، غائب سے
ناجائز” — یہ اصول کہاں سے؟
“جب حاضر میں
مانگنا شرک نہیں تو غائب میں مانگنا کے لیے الگ سے دلیل چاہیے ہوگی۔
شرک کی ایسی حقیقت قرآن و حدیث میں دیکھا دے کہ شرک ظاہر میں
مانگو تو نہیں،
ہاں غائب میں مانگ لو تو شرک ہے۔
ایسا ڈرامہ تو دین کے ساتھ ابولہب و فرعون بھی نہ کر پائے جو
بعض مولوی حضرات نے کیا!”
🔸 تشریح:
قرآن میں شرک کی تعریف “اللہ کے ساتھ کسی کو مستقل مؤثر
ماننا” ہے —
نہ کہ “مدد حاضر سے مانگنے یا غائب سے مانگنے” پر۔
یہ تقسیم قرآن، حدیث یا سلف میں کہیں موجود نہیں۔
لہٰذا فاصلے یا حالتِ غیبت سے مدد مانگنے کو شرک کہنا
بلا دلیل اور غیر قرآنی تقسیم ہے۔
⸻
🔹 7. اگر بندہ مدد کر سکتا ہے تو
اس سے مدد مانگنا کیسے ناجائز؟
“جب امداد بندہ کر
سکتا ہے ہر طرح کی — ما فوق الاسباب یا تحت الاسباب —
تو اس سے مانگنا کیسے ناجائز ہے غائب میں یا حاضر میں؟”
🔸 تشریح:
بالکل قرآن اسی کو بیان کرتا ہے:
جنّ، انسان، فرشتے — سب اللہ کے حکم سے مدد کر سکتے ہیں۔
حرام صرف یہ ہے کہ ان کو مستقل طاقت کا مالک مانا جائے۔
اگر مدد کا عقیدہ باللہ، من اللہ، باذن اللہ ہے —
تو وہ عینِ توحید ہے۔
⸻
🔹 8. سماعت و ادراک کا مسئلہ
“جو بندہ مشرق میں
بیٹھ کر آپ کے سامنے ظاہر طور پر مغرب سے کچھ لا سکتا ہے —
یہ طاقت اس کے پاس ہے۔
اور آپ مغرب میں ہوں تو آپ اس کو آواز دو، وہ نہیں سنے گا
کیا؟”
🔸 تشریح:
قرآن و سنت میں “سماعِ عطائی” ممکن ہے —
یعنی اللہ جسے چاہے دور کی بات سننے کی قدرت دے دے۔
جیسے فرشتے، جنّات اور انبیاء علیہم السلام کو۔
لہٰذا ایسے بندے سے مدد طلب کرنا
اللہ کے دیے ہوئے دائرے میں ممکن اور مشروع ہے۔
🌿 دلیل نمبر 1
غائب سے سماعت و امداد — واقعہ آصف بن برخیا اور ساریہ رضی
اللہ عنہ کی روشنی میں
⸻
🔹 مقدمہ:
قرآنِ مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کا واقعہ
(سورۃ النمل: 38–40)
“ما فوق الاسباب
مدد” کے تصور پر روشنی ڈالتا ہے۔
اس واقعے میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آصف بن برخیا کو ایسی
قدرت عطا فرمائی تھی
کہ وہ بلقیس کا تخت یمن سے فلسطین تک “پلک جھپکنے سے پہلے” لا
سکتے تھے۔
⸻
🕋 1. قرآنی دلیل
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ
بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ
“جس کے پاس کتاب
کا علم تھا، اس نے کہا: میں وہ تخت آپ کے پاس لاتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ کی پلک
جھپکے۔”
📖 (النمل: 40)
یہ واقعہ قرآنِ مجید کی نصّ قطعی سے ثابت ہے۔
یہاں دو باتیں نمایاں ہیں:
1️⃣ آصف بن برخیا نے “غائب” مقام (یمن) سے تخت لایا۔
2️⃣ یہ عمل ما فوق الاسباب تھا — نہ جسمانی نقل و حمل،
نہ فاصلہ، نہ وقت۔
⸻
🌿 2. عقلی نتیجہ: سماعت کی قوت
امداد سے کم نہیں
آپ نے درست فرمایا:
“اگر آصف بن برخیہ
یمن سے تخت لا سکتا ہے تو یمن سے دی گئی آواز بھی سن سکتا ہے۔”
یہ نکتہ عقلی و منطقی لحاظ سے لازم ہے، کیونکہ:
• جسمانی طاقت سے
زیادہ نازک اور تیز عمل “سماعت” ہے۔
• جب ایک بندہ اللہ
کے اذن سے مادی فاصلہ ختم کر کے تخت منتقل کر سکتا ہے،
تو وہ اسی فاصلے سے آواز سننا یقیناً اس کے لیے آسان تر ہے۔
قرآن میں اس کی نفی نہیں، بلکہ اثباتِ تصرف کا ثبوت موجود ہے۔
⸻
🌿 3. سماعتِ غیب کی تائید: واقعہ
“ساریہ الجبل”
یہ واقعہ مشکوٰۃ المصابیح (حدیث 3794) میں منقول ہے:
أن عمرَ بن الخطابِ رضي الله عنه كان يخطبُ يومَ الجمعةِ،
فقال في أثناءِ خطبتِه: يا ساريةُ الجبلَ، الجبلَ!
“حضرت عمرؓ جمعہ
کے خطبے میں تھے کہ اچانک فرمایا: اے ساریہ! پہاڑ کی طرف! پہاڑ کی طرف!”
روایت کے مطابق حضرت ساریہؓ (جو میدانِ جہاد میں ایران کے
قریب تھے)
نے یہ آواز سنی اور پہاڑ کے قریب ہو گئے، جس سے لشکر محفوظ ہو
گیا۔
🔹 اگرچہ سند پر کلام ہے،
لیکن یہ واقعہ تاریخ و تفاسیر میں بطور تائیدی شہادت ذکر کیا
گیا ہے،
اور ائمہ نے اسے کرامت و تصرف کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
📚 حوالہ:
• مشکوٰۃ المصابیح،
حدیث 3794
• البدایہ والنہایہ
(ابن کثیر، ج 7، ص 131)
• فتح الباری (ابن
حجر، ج 6، ص 82)
⸻
🌿 4. اصولی نکتہ: صاحبِ استطاعت سے
مدد مانگنا جائز
“جو مدد کر سکتا
ہو، اس سے مدد مانگنا شرک نہیں،
کیونکہ مدد اللہ کے اذن سے ہوتی ہے، بندہ صرف مظہر ہے۔”
اسی اصول کے تحت:
• مریض ڈاکٹر سے
علاج مانگتا ہے،
• شاگرد استاد سے
علم مانگتا ہے،
• اور ولی یا نبی،
جنہیں اللہ نے قدرتِ تصرف عطا کی ہو
ان سے روحانی یا ما فوق الاسباب امداد مانگنا عقلاً و نقلاً
جائز ہے
،
🌿 دلیل نمبر 2
قمیصِ یوسف علیہ السلام سے شفاء اور بعد الوفات مدد کی مشروعیت
⸻
🔹 مقدمہ:
قرآنِ مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کا واقعہ
“غیر اللہ کے وسیلے سے امداد اور شفاء” کے مسئلہ میں نہایت واضح دلیل ہے۔
یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جمادات یا غائب اشیاء اگر اللہ کے نبی سے منسوب ہوں،
تو ان سے شفاء و برکت طلب کرنا شرک نہیں، بلکہ اذنِ الٰہی سے سنتِ انبیاء ہے۔
⸻
🕋 1. قرآنی دلیل: قمیصِ یوسف سے شفاء
اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا
“میری یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے چہرے پر ڈال دو، ان کی بینائی واپس آجائے گی۔”
📖 (سورۃ یوسف: 93)
اور آگے فرمایا گیا:
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا
“جب خوشخبری لانے والے نے قمیص ان کے چہرے پر ڈالی، ان کی بینائی لوٹ آئی۔”
📖 (یوسف: 96)
⸻
🌿 2. تجزیہ و نکات
نکتہ
توضیح
1️⃣ قمیص جماد ہے
نہ سن سکتی، نہ بول سکتی، نہ ارادہ رکھتی — صرف نسبتِ نبی کی برکت سے مؤثر ہوئی۔
2️⃣ یوسف علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگنے کے بجائے سبب اختیار کیا
سیدھا قمیص بھیجنا ظاہر کرتا ہے کہ نسبتِ نبی بذاتِ خود سببِ شفاء ہو سکتی ہے۔
3️⃣ یعقوب علیہ السلام نے انکار نہیں کیا
اگر یہ شرک یا بدعت ہوتی تو فوراً رد فرماتے، بلکہ خود عمل کر کے شفاء پائی۔
4️⃣ ان کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ “شفاء قمیص سے ہوگی”
اور اللہ نے اسی ذریعہ سے شفاء دی — اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے وسیلہ سے اثر ماننا شرک نہیں
4. صحابہ و تابعین کے آثار سے تائید
قرآن کے بعد یہ مسئلہ صحابہ کرام کے آثار سے مزید واضح ہوتا ہے:
❤ (1) ابن عباس رضی اللہ عنہ
📖 الادب المفرد للبخاری (حدیث: 964)
“ان کا پاؤں سن ہوگیا تو کہا: يا محمداه، فوراً درست ہوگیا۔”
یہ صریح دلیل ہے کہ نامِ نبی سے مدد طلب کرنا جائز سمجھا گیا۔
⸻
❤ (2) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
📖 البدایہ والنہایہ (ابن کثیر، ج 6، ص 324)
“یمامہ میں شکست کے وقت خالدؓ نے مدینہ کی طرف منہ کر کے پکارا:
يا محمداه، يا نصر الله!”
یہ “بعد الوفات توسل و استغاثہ” کی عملی مثال ہے۔
⸻
❤ (3) نبی ﷺ کی سماعتِ بعید
📖 شعب الایمان للبیہقی (3/491)
“نبی ﷺ سلام سن کر کرنے والے کا جواب دیتے ہیں، خواہ قریب ہو یا دور،
یعنی دور سے صدا سننا اور جواب دینا نبی ﷺ کے حق میں نصوص سے ثابت ہے۔
⸻
❤ (4) دعا عثمان غنی رض کے زمانہ میں
📖 ابن ماجہ و طبرانی —
“یامحمد، إنی أتوجہ بک إلی ربی…”
(اے محمد ﷺ! میں آپ کی توجہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔)
اشرف تھانویؒ نے نشر الطیب میں اس کو بعد وفات توسل کی دلیل قرار دیا۔
⸻
❤ (5) بلال بن حارث المزنی رضی اللہ عنہ
📖 مصنف ابن ابی شیبہ (حدیث 32538)
“اے رسول اللہ ﷺ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے، وہ ہلاک ہو گئی ہے۔”
امام ابن حجر نے فرمایا: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
⸻
❤ (6) “يا عباد الله أغيثوني”
📖 مجمع الزوائد (10/132)، شعب الایمان، امام نووی نے بھی نقل کیا —
نبی ﷺ نے فرمایا: “جب تم جنگل یا وادی میں ہو اور راستہ کھو جاؤ تو کہو يا عباد الله أغيثوني (اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو)”
یہ حکم غائب مدد کے لیے پکارنے پر نبی ﷺ کی تصریح ہے۔
⸻
❤ (7) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
📖 وفاء الوفاء (ابن جوزی)، دارمی (1/56)
“لوگ بارش کے لیے قبرِ نبوی ﷺ کے پاس آتے تھے،
حضرت عائشہ نے فرمایا: قبر سے بارش طلب کرو، اللہ تمہیں سیراب کرے گا۔”
⸻
❤ (8) اعرابی کا قبرِ انور پر فریاد کرنا
📖 المغنی لابن قدامہ، وفاء الوفاء، دلائل النبوۃ
“ایک اعرابی آیا، قبرِ نبوی ﷺ پر عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ، میں نے گناہ کیے ہیں،
آپ کے پاس آیا ہوں کہ میرے لیے استغفار فرمائیں،
ابن قدامہ نے لکھا: فَغُفِرَ لَهُ — پس فوراً اس کی حاجت پوری ہوئی۔”
⸻
❤ (9) حضرت ابو الخیر کا واقعہ
📖 صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی
“انہوں نے قبرِ نبوی ﷺ پر التجاء کی تو اللہ نے فوراً رزق عطا فرمایا۔”










0 Comments