امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی مجلس میں صوفیوں کے علمِ کا ذکر اور صوفی کا ادب

 امام صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي رحمہ الله لکھتے ہیں:

أبو حمزة الصوفي البغدادي، محمد بن إبراهيم: أستاذ البغداديين، قال ابن الجوزي في المرآة:


هو أول من تكلم ببغداد في هذا المذهب من صفاء الذكر وجمه الهمة والمحبة والشوق والقرب والأنس، لم يسبقه إلى هذا الكلام بهذا على رؤوس المنابر ببغداد أحد، ومازال مقبولا حسن المنزلة عند الناس إلى أن توفي عام ٢٦٩، وكان عالما بالقراءات، جالس الإمام أحمد، وكان إذا جرى في مجلس أحمد شيء من كلام القوم يلتفت إلى أبي حمزة ويقول: ما تقول في هذه المسألة يا صوفي

ترجمہ:”ابو حمزہ صوفی بغدادی، محمد بن ابراہیم:

یہ بغداد کے صوفیوں کے استاد تھے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے المرآة میں فرمایا:


یہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بغداد میں اس طریق پر گفتگو کی — یعنی ذکر کی پاکیزگی، ہمت کی جمعیت، محبت، شوق، قرب اور اُنس کے بارے میں — اور ان سے پہلے بغداد میں کسی نے منبروں پر اس انداز سے یہ باتیں نہیں کی تھیں۔

وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان مقبول اور باعزت مقام رکھتے رہے، یہاں تک کہ سن ۲۶۹ ہجری میں ان کا انتقال ہوگیا۔


وہ علمِ قراءات کے ماہر تھے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔

اور جب امام احمد کی مجلس میں صوفیوں کے کسی کلام کا ذکر ہوتا تو امام احمد ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کرتے:

اے صوفی! تم اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟“

(الوافي بالوفيات ج 1 ص 255)



Post a Comment

0 Comments