تخفیف عذاب ابولہب و ابو طالب کے سبب کی تحقیق اور میلاد پر صدقات


تخفیف عذاب ابو طالب کے سبب کی تحقیق


کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قران مقدس میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 6( ان الذین کفرو ا سواء علیہم ءانذرتهم )کے تحت مفسرین نے جہاں کفار کی قسمیں بیان کی وہاں کفر عناد کے تحت ابو طالب کے کفر کی مثال دی گئی کہ ان کا کفر کفر عنادی تھا اور وہ اسی پر مرے ہیں اعلی حضرت کا بھی یہی موقف ہےاب ان کفار کے بارے میں قران مقدس کے اندر دوسری ایت ہے(فلا يخفف عنہم العذاب)ان کے عذاب میں تخفیف نہ کی جائے گی قران تو کہتا ہے کہ کفار کے عذاب میں تخفیف نہ ہوگی اب یہ ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا احادیث میں غالبا بخاری میں یہ مضمون ملتا ہے کہ ابو طالب کے عذاب میں تخفیف ہوئی ہے اس لیے کہ انہوں نے حضور کی جو خدمت کی ہے تو وہ ٹخنوں تک اگ میں ہیں یا قیامت کے دن ان کو اگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی اس طرح کی ان کے عذاب میں تخفیف والی روایات موجود ہیں تو یہاں قران کی  آیت اور ان احادیث میں کیا تطبیق ہے قران کہتا ہے کہ عذاب میں تخفیف نہیں ہے حدیث کہتی ہے کہ ابو طالب جو کفر پر مرا اس کے عذاب میں تخفیف ہوئی تو یوں قران و حدیث میں بظاہر تضاد نظر ارہا ہے اس کی تطبیق بیان فرما دیں





786:الجواب  :  قرآن کریم کی آیات اور احادیث میں کوٸی تعارض نہیں   - ابو طالب کے عذاب میں تخفیف امام الانبیاء شفیع المذنبین خاتم المعصومین والنبین جناب صادق و امین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت وخصوصیت کی بنا پر ہے کہ خود احادیث میں  تصریح فرمائی  - 


اس حوالے سے چند روایات اور اکابرین اہل سنت کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں 


1۔۔۔۔صحیحین و مسند امام احمد میں حضرت سیدنا عباس عمِ رسول صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے۔ 


《انه قال للنبی صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم ما اغنیت عن عمك فوﷲ کان یحوطك ویغضب لك قال ھو فی ضحضاح من نارولولا انا لکان فی الدرك الاسفل من النار ۔وفی روایة وجدته غمرات من النار فاخرجته الٰی ضحضاح ۔》یعنی انہوں نے خدمت ِ اقدس حضور سید المرسلین صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کی حضور  صلى الله علیہ والہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کو کیا نفع دیا؟ خداپاک عزوجل کی قسم وہ حضور  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حمایت کرتا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے لوگوں سے لڑتا جھگڑتا تھا۔فرمایا :"میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا ہوا پایا تو اُسے کھینچ کر پاؤں تک  آگ میں کردیا اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوتا۔"

(صحیح مسلم  ،کتاب الایمان باب شفاعت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم لابی طالب۔۔الخ، جلد 1ص115-)


اس حدیث شریف کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں "میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا ہوا پایا تو اُسے کھینچ کر پاؤں تک آگ میں کردیا اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوتا۔" 

:میں نہ ہوتا تو " کے الفاظ  حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت وخصوصیت کی تصریح فرمارہے ہیں  اگر ابوطالب کو خصائص وشفاعت مصطفی کی برکت نصیب نہ ہوتی تو وہ جہنم کے سب سے نیچے والے طبقہ میں ہوتا ابو طالب پر تو آیات قرآنی کے مطابق پورا عذاب ہورہا تھا اور وہ اس آگ میں سر لے  کر پاؤں تک   جہنم کی آگ کی لپیٹ میں تھا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے کھنچ کر پاؤں تک جہنم کی آگ میں کردیا یہ مضمون خود اسی حدیث شریف میں موجود کہ "میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا ہوا پایا تو اُسے کھینچ کر پاؤں تک آگ میں کردیا "


 ١۔۔۔اس حدیث شریف کے تحت امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:


《یؤید الخصوصیة  انه بعد ان امتنع شفع له جتی خفف له العذاب بالنسبة لغیرہ  ۔》 یعنی نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خصوصیت سے ہوا کہ ابو طالب نے باآنکہ ایمان لانے سے انکار کیا پھر بھی حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت نے اتنا کام دیا کہ بہ نسبت باقی کافروں کے عذاب ہلکا ہوگیا۔

(فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورة القصص باب قوله انك لاتهدى..الخ، جلد 10،ص123-مطبع مصطفے البابی مصر )


٢....امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ العزیز  فرماتے ہیں:


"ابو طالب کے بارے میں رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نہیں دیکھا  کہ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتا۔۔۔۔ ابوطالب کی طرف سے تمام عمر نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت نہ ہوتی تو ابوطالب جنہم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے کیونکہ کمال معرفت کے باوجود نے انہوں سے انکار کیا۔ "

(فتاوی رضویہ شریف، رسالہ شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، جلد29،ص 671-)


2۔۔۔۔صحیحین و مسند امام احمد میں ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہے:


《ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ذکر عندہ عمہ ابوطالب فقال لعلہ تنفعہ شفاعتی یوم القیمۃ فیجعل فی ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغلی منہ دماغہ ۔یعنی حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے ابو طالب کا ذکر آیا فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ روزِ قیامت میری شِاعت اسے یہ نفع دے گی کہ جہنم میں پاؤں تك کی آگ میں کردیا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تك ہوگی جس سے اس کا دماغ جوش مارے گا۔(مسند الامام الاحمد بن جنبل، عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، جلد 3،ص59،مطبع المکتب الاسلامی بیروت-)(صحیح مسلم  ،کتاب الایمان باب شفاعت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم لابی طالب۔۔الخ، جلد 1ص115-) (صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب قصة ابى طالب،  جلد 1،ص548،مطبع کراچی قدیمی کتب خانہ-)


3۔۔۔یونس بکر بکیر نے حدیث محمد بن اسحق سے یوں روایت کی《ا:یعلی منه دماغه حتی یسیل علٰی قدمیه  ۔》یعنی اس کا بھیجا اُبل کر پاؤں پر گرے گا(۔ المواہب للدنیہ بحوالہ ابن اسحاق جلد1ص264 -ارشاد الساری بحوالہ ابن اسحاق  تحت الحدیث 3885 جلد8،ص351-)


  ان دونوں روایتوں کے تحت عمدۃ القاری وارشاد الساری شروح صحیح بخاری و مواہب الدنیا وغیرہا میں امام سہیلی سے منقول:


《الحکمة فیه ان اباطالب کان تابعا لرسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم لجملته الا انه استمرثابت القدم علٰی دین قومه فسلط العذاب علٰی قدمیه خاصة  لتثبیته ایا ھما علی دین قومه  ۔ 》 یعنی ابو طالب کے پاؤں تک آگ رہنے میں حکمت یہ ہے کہ ﷲ عزوجل جزا ہمشکل عمل دیتا ہے ابوطالب کا سارا بدن حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حمایت میں صرف رہا،ملتِ کفر پر ثابت قدمی نے پاؤں پر عذاب مسلط کیا۔

( عمدة القاري شرح صحیح البخاري  ،مناقب الانصار، باب قصة ابى طالب، حديث 3885  مطبع بیروت دارالکتب العلمیہ، جلد 17،ص24-) ( ارشاد الساری بحوالہ  السہیلی، تحت الحدیث 3885،جلد 8ص351)(المواہب للدنیہ بحوالہ السہیلی،  جلد1ص264-)


4۔۔۔بزارو ابویعلٰی وابن عدی و تمام حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی:


《قیل للنبی صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم ھل نفعت ابا طالب قال اخرجته من غمرۃ جھنم الٰی ضحضاح منہا ۔》 یعنی حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی گئی حضور نے ابوطالب کو کچھ نفع دیا۔فرمایا میں نے اسے دوزخ کے غرق سے پاؤں کی آگ میں کھینچ لیا۔

(مسند ابی یعلی موصلی  عن مسند جابر بن عبداللہ  حدیث 2043،جلد 2ص398،مطبع بیروت  موسستہ علوم القرآن، 


امام عینی عمدہ میں فرماتے ہیں۔


《فان قلت اعمال الکفرۃ ھباء منثورا لافائدۃ فیھا قلت ھذاالنفع من برکة رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم وخصائصه 》۔ اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ ابو طالب کو یہ نفع ملنا صرف حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی برکت سے ہے ورنہ کافروں کے اعمال تو غبار ہیں ہوا پر اڑائے ہوئے۔

(عمدة القاري شرح صحیح البخاري  ،مناقب الانصار، تحت الحديث 3883۔مطبع بیروت دارالکتب العلمیہ، جلد 17،ص23-) 


حديث نمبر 5:

طبرانی حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی:


《ان الحارث بن ھشام اتی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم یوم حجۃدة الوداع فقال یارسول ﷲ انی کنت علی صلة الرحم والاحسان الی الجاروایواء الیتیم واطعام الضیف واطعام المسکین وکل ھذا قدن کا یفعله ھشام بن المغیرۃ فماظنك به یارسول ﷲ فقال رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کل قبر ای لایشہد صاحبه ان لا اله الا ﷲ فہوجذوۃ من النار، و قدوجدت عمی اباطالب فی طمطام من النار فاخرجه  ﷲ لمکانه  منی واحسانه الی فجعه فی ضحضاح من النّار ۔》یعنی حارث بن ہشام رضی ﷲ تعالٰی عنہ  نے روز حجۃ الوداع حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی۔یارسول ﷲ ! میں ان باتوں پر عمل کرتا ہوں۔رشتہ داروں سے نیک سلوک، ہمسایہ سے اچھا برتاؤ،یتیم کو جگہ دینا،مہمان کو مہمانی دینا، محتاج کو کھانا کھلانا اور میر اباپ ہشام یہ سب کام کرتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اس کی نسبت کیا گمان ہے ؟ فرمایا جو قبر بنے جس کا مردہ لاالٰه  الا ﷲ نہ مانتا ہو وہ دوزخ کا انگارا ہے میں نے خود اپنے چچا ابوطالب کو سر سے اونچی آگ میں پایا،میری قرابت و خدمت کے باعث ﷲ تعالٰی نے اُسے وہاں سے نکال کر پاؤں تک  آگ میں کردیا۔

( المعجم الکبیر للطبرانی، عن ام سلم جلد 23،ص405،حدیث 972مطبع بیروت المکتبتہ الفضلیتہ-)( المعجم الاؤ سط للطبرانی، جلد 8،ص190،حدیث 7385 مطبع ریاض مکتبتہ المعارف 



امام اہل سنت شرح المطالب فی مبحث ابی طالب میں  اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:مجمع نجار الانوار میں بعلامت کاف امام کرمانی شارح بخاری سے منقول:

《نفع اباطالب اعمالہ ببرکتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وان کان اعمال الکفرۃ ھباء منثورا ۔ 》یعنی نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی برکت سے ابوطالب کے اعمال نفع دے گئے ورنہ کافر وں کے کام تو نِرے برباد ہوتے ہیں۔ (فتاوي رضویہ جلد 29،ص 676، مطبع لاہور رضا فاونڈیشن-)


 خلاصہ کلام یہ کہ اللہ رب العزت عزوجل نے سرکار اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت وکرامت یعنی خصوصیت شفاعت کی برکت سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف فرمادی - سرکار اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "میں نے خود اپنے چچا ابوطالب کو سر سے اونچی آگ میں پایا،میری قرابت و خدمت کے باعث ﷲ تعالٰی نے اُسے وہاں سے نکال کر پاؤں تک  آگ میں کردیا۔" لہذا اب آیات اور احادیث میں تعارض نہ رہا- 




















اس سے معلوم یہ بھی ہوا کہ اگر کافر رسول اللہ ﷺ کے لیے عمل کرے اس پر یہ اجر ہے تو اگر وہ عمل مومن مواحد کرے تو اس کا کیا مقام ہوگا ۔۔۔


اس مسئلے پر مزید تفصیل جاننے کے لیے فتاوی رضویہ شریف جلد 29 میں موجود رسالہ "شرح المطالب فی مبحث ابی طالب "کا مطالعہ کریں-

Post a Comment

0 Comments