سوال: کیا ہمارے پیارے نبی
علیہ السلام نور ہے یا پھر بشر؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم ظاہری طور پر بشر ہیں جیسا کہ قران پاک میں ہے:
"قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا" (اسراء: 93)
ترجمہ: تم فرماؤ پاکی ہے میرے رب کو میں کون ہوں مگر آدمی اللہ کا بھیجا ہوا۔
اور کئی مرتبہ حضور علیہ السلام کے لیے نور کا اطلاق کیا گیا ہے جیسا کہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں نور سے مراد حضور علیہ السلام کو لیا
"قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ" (مائدہ: 15)
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔
اس میں "نور" سے مراد حضور علیہ السلام کی ذات ہے
جیسا کہ"تفسیر ابن عباس، تفسیر طبری، تفسیر رازی، تفسیر بیضاوی، تفسیر جلالین، تفسیر خازن، تفسیر نسفی، تفسیر صاوی" وغیرہا میں آیا اور ساتھ ہی معتمد و معتبر کتابوں میں بھی یہی تفسیر کی گئی۔
اور علماء نے فرما دیا کہ "نور و بشر ہونے میں کوئی تضاد نہیں ہے"
(مزید جاننے کے لیے
کتاب "اجابۃ السائلین" کے حاشیے کا مطالعہ کیجیے)
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
یاد رہے! حضور علیہ السلام کے بشر ہونے کا انکار کرنا کفر ہے جبکہ نور ہونے کا انکار کرنا گمراہیت ہے۔
( فقیہ ابو اللیث سمرقندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ وَھُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ‘‘ یعنی نور سے مراد محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن ہیں۔(سمرقندی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۲۴)۔ ،،، علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ وَھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ وَالنَّبِیُّ الْمُخْتَارُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ‘‘ یعنی اس نور سے مراد تمام نوروں کے نور، نبی مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ہے۔ (روح المعانی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۵ / ۳۶۷) )
بلکہ خود رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا نور ہونا بیان فرمایا، چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم کے استاذ کے استاذ امام عبد الرزاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں ’’قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عَنْ اَوَّلِ شَیْئٍ خَلَقَہُ اللہُ تَعَالٰی؟ فَقَالَ ھُوَ نُوْرُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ خَلَقَہُ اللہُ‘‘ یعنی حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا؟ ارشاد فرمایا ’’اے جابر! وہ تیرے نبی کا نور ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔(الجزء المفقود من المصنف عبد الرزاق، کتاب الایمان، باب فی تخلیق نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ص۶۳، الحدیث: ۱۸ )
نور ربی کا جزء ماننا کفر ہے،
نور اللہ سے مراد اللہ کی ملکیت میں نور ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جیسا کہ حضرت عیسی کو روح اللہ کہا جاتا ہے
جیسا کہ درود پڑھا جاتا ہے:
الصلاة والسلام عليك يا نور الله
ذات خدا کا جزء ماننا بلاشک شرک و کفر ہے،
اور یہ عقیدہ اہل سنت کا نہیں ہے بلکہ نجدی شیاطین کا اہل حق پر بہتان ہے




0 Comments