اصول کرخی کی عبارت پر اعتراض .رضوی بھائئ کی تلوار



DOWNLOAD PDF THIS BOOK


 

 اصولِ کرخی کی مشہور عبارت

امام ابوالحسن الکرخیؒ (متوفی 340ھ) کی نسبت سے ایک اصولی قاعدہ منقول ہے:

"كل آيةٍ أو حديثٍ يخالف ما عليه أصحابنا، فهو مؤوَّلٌ أو منسوخ."

ترجمہ:
“ہر وہ آیت یا حدیث جو ہمارے (فقہائے احناف کے) مذہب کے خلاف ہو، وہ یا تو مؤول (تأویل شدہ) ہے یا منسوخ۔”


⚠️ اعتراض

بعض لوگ اس عبارت پر سخت اعتراض کرتے ہیں،
اور کہتے ہیں کہ:

“یہ عبارت گویا قرآن و حدیث کو فقہ کے تابع بنا رہی ہے،
یعنی اگر قرآن و سنت احناف کے قول کے خلاف ہوں تو ان کی تاویل یا نسخ کر دیا جائے۔
یہ تو دین کی بنیادوں کے خلاف بات ہے!”

یہ اعتراض بظاہر شدید معلوم ہوتا ہے،
لیکن دراصل غلط فہمی پر مبنی ہے۔


🕋 جواب اور وضاحت

1. اصل مقصد قرآن و حدیث کی مخالفت نہیں

امام کرخیؒ کا مقصد یہ نہیں کہ فقہ قرآن و سنت پر مقدم ہے۔
بلکہ مطلب یہ ہے کہ:

“فقہائے احناف کا جو موقف ہوتا ہے، وہ دراصل قرآن و سنت ہی کے فہم و اصول سے ماخوذ ہوتا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی ظاہری طور پر آیت یا حدیث اس کے خلاف نظر آئے،
تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ شاید اس کی کوئی دوسری تاویل یا تخصیص فقہاء نے کی ہو۔”

یعنی یہ ایک اصولی احتیاط ہے،
نہ کہ قرآن و سنت کی تردید۔


2. “مؤول” یا “منسوخ” کہنے سے مراد علمی توجیہ ہے

امام کرخیؒ کی عبارت کا مقصود یہ ہے کہ:

  • اگر کسی حدیث یا آیت سے بظاہر فقہی حکم کا تضاد معلوم ہو،
    تو پہلے ہم دیکھیں گے کہ فقہاء نے اس کی تأویل (یعنی فہمِ درست) کس طرح کیا ہے۔

  • اگر اس پر ناسخ یا عام و خاص کا پہلو واضح ہے تو وہ بتائیں گے۔

یعنی یہ تحقیقی تعامل ہے،
نہ کہ فقہ کو وحی پر ترجیح دینا۔


3. فقہ حنفی قرآن و سنت سے ماخوذ ہے

امام کرخیؒ فقہ حنفی کے بڑے محدث و فقیہ تھے۔
انہوں نے خود فرمایا تھا:

"أصل مذهبنا أن نأخذ بالكتاب ثم بالسنة ثم بإجماع الصحابة ثم بالقياس."
(اصول الکرخی)

یعنی:
ہمارا اصول یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن، پھر سنت، پھر صحابہ کا اجماع، پھر قیاس۔
لہٰذا ان پر یہ الزام کہ وہ قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں — باطل اور غلط فہمی ہے۔

Post a Comment

0 Comments