اصول حدیث میں مرسل روایات کا حکم رسالہ

 





DOWNLOAD BOOK PDF


مرسل روایت کی تعریف




مرسل روایت وہ ہوتی ہے جس میں تابعی (صحابی کے شاگرد) نبی ﷺ سے براہِ راست روایت کرے، یعنی درمیان میں صحابی کا ذکر چھوڑ دے۔

مثلاً:
تابعی کہے:

“قال رسول اللہ ﷺ…”
لیکن یہ نہ بتائے کہ یہ بات اسے کس صحابی نے سنائی۔

ایسی روایت کو “مرسل” کہا جاتا ہے۔


🧾 مرسل روایت کی مثال

امام زہریؒ روایت کرتے ہیں:

“أن النبي ﷺ قال: لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه”
حالانکہ امام زہری نے نبی ﷺ کو نہیں پایا، بلکہ صحابی کو چھوڑ دیا۔
لہٰذا یہ روایت مرسل کہلائے گی۔


⚖️ مرسل روایت کا حکم (فقہی و اصولی حیثیت)

1. جمہور محدثین (اکثر اہلِ حدیث) کا موقف:

مرسل روایت ضعیف (ناقابلِ حجت) سمجھی جاتی ہے،
کیونکہ اس میں سند کا ایک اہم حصہ یعنی صحابی گم ہے۔
چونکہ تابعی یہ نہیں بتاتا کہ کس صحابی سے روایت لی،
اس لیے سند میں انقطاع (断 ہونا) پایا جاتا ہے۔

امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام احمدؒ اور اکثر محدثین کے نزدیک
مرسل روایت حجت نہیں۔


2. احناف، مالکیہ اور بعض شوافع کا موقف:

اگر مرسل روایت کسی ثقہ تابعی کی ہو،
اور اس روایت کی تائید دوسری روایات یا آثار سے ہو جائے،
تو ایسی مرسل روایت قابلِ قبول ہو جاتی ہے۔

امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ (بعض اقوال میں)
مرسل روایت کو مشروط طور پر حجت مانتے ہیں۔


📚 مرسل روایت کے قبول یا رد کے اصول

محدثین نے چند شرائط بیان کی ہیں جن پر مرسل روایت قابلِ قبول ہو سکتی ہے:

  1. راوی ثقہ تابعی ہو۔

  2. روایت کے متن میں شذوذ یا نکارت نہ ہو۔

  3. دوسری صحیح روایات سے تائید ملتی ہو۔

  4. روایت کسی فقہی اصول یا اجماع کے خلاف نہ ہو۔

اگر یہ شرائط پوری ہوں تو مرسل روایت کو “قوی مرسل” کہا جاتا ہے،
ورنہ وہ ضعیف مرسل رہتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments