صحآبہ کا میلاد منانا اور صحآبہ سے میلاد کی اصل ثابت ہے

 یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔۔۔ اِمام 

بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں






















فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له: ما ذا لقيت؟ قال أبولهب: لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.

’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا: کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5: 1961، رقم: 4813

2. عبد الرزاق، المصنف، 7: 478، رقم: 13955

3. عبد الرزاق، المصنف، 9: 26، رقم: 16350

4. مروزي، السنة: 82، رقم: 290

5. بيهقي، السنن الکبري، 7: 162، رقم: 13701

6. بيهقي، شعب الإيمان، 1: 261، رقم: 281

7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1: 149

8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 108

9. ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص: 154، رقم: 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔

10. بغوي، شرح السنة، 9: 76، رقم: 2282

11. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1: 62

12. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3: 98، 99

13. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3: 168

14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67: 171، 172

15. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 229، 230

16. عسقلاني، فتح الباري، 9: 145

17. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20: 95

18. شيباني، حدائق الأنوار، 1: 134

19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1: 41

20. انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4: 278


مزید تفصیل کے لیے باب دوئم کا مطالعہ کریں۔۔۔



’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول ﷺ کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘

اب دائل دیکھنے کے بعد وہابیت منکر میلاد کی خدمت میں اقبال رضوی بطور چیلنج کچھ سوالات رکھنے لگا ہے منکریں میلاد مر جائے گا مگر جواب نہ دے پائے گا

اجروثواب کی نیت سے خیرات کرنا مستحب

صحابہ نے میلاد پر خوش ہونے کو مستحب سمجھا


امام بخاری نے یہ رویت کیوں کیا جبکہ اس حدیث سے کوئی شرعی مسلہ واضع تو ہو نہیں رہا ۔۔

دو ہی باتیں سمجھ آتی ہیں پہلی یہ کہ یا تو امام بخآری اور اس واقعے کو بیان کرنے والے حضرت عباس اور ام حبیبہ ؒ  مناقب ابولہب کے قائل تھے اور ابولہب کی تعریف میں قرآن کی آتھ آیات کے خلاف کافر کے حق میں رویت کر دی ۔۔چلو اگر حضرت عباس نے خواب دیکھ ہی لیا تھا تو مفسر القرآن اور امت کے عالم تھے وہ استغفار کرتے اور ابولہب ملعون پر لعنت کرتے ۔نہ کہ اگے حضرت ام حبیبہ ؒ کو بتاتے ۔بلفرض ام حبیبہ کو بتا دیا  تو وہ آگے روایت نہ کرتیں اور پھر یہی واقعہ بہت سے اصحاب سے مروی ہے ۔۔اور تو اور امام بخاری صاحب بھی اس کو دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر اپنی صحیح بخاری میں لے آئے اور بعد کے جید محدیثین جن کے حوالہ جات گزر چکے انہوں نے اس واقعہ کو میلاد پر اجر کی دلیل بنایا ۔۔اب ہم وہابیوں کی مانیں یا اصحآب رسول ﷺ اور ائمہ محدیثین کی۔۔دوسری بات یہ سمجھ آتی ہے کہ یہ واقعہ مناقب ابولہب میں نہیں بلکہ میلاد النبیﷺ پر خوش ہوکر صدقہ خیرات و خرچ کرنے پر اجر ملتا ہے  اس پر دلیل ہے اس لیے حضرت عباس ؒ اور دیگر صحابہ اس واقعے سے یہی مراد لیتے تھے کہ نبی ﷺ کے میلاد پر خوش ہونے اور صدقہ دینے میں اجر ہے ورنہ وھابی ہی مجھے بتائیں اس رویت کا اس کے سوا کیا مطلب ہو سکتا ہے 

یہاں سے کچھ باتیں واضع ہوئی 

صحابہ میلاد پر صدقہ کے قائل تھے ورنہ یہ روایت نہ  کرتے

میلاد پر صدقات و خیرات پر اجر ہے صحابہ بھی قائل ہیں

امام بخاری بھی میلاد کے اجر و ثواب کے قائل

صحابہ کا روایت کرنا ان کے عقیدہ کی دلیل ہے 

کافر اگر نبیﷺ کے لیے عمل کرے تواس کو بھی اجر ہے

حدیث کی اصل سے میلاد ثابت ہو گیا تو اب اھتمام میلاد بدعت نہ رہا

قرون اولی میں بھی صدقہ میلاد کا نظریہ تھا

صحابہ کبھی لغو عمل تعلیم نہیں کر سکتے 

صحابہ پہلے خؤد عمل کرتے تو ہی تعلیم کرتے

صحابہ نے میلاد نہیں منایا تم ان سے بڑے عاشق ہو؟

سب سے پہلے تو اصول طے کرنا ہوگا کہ کیا ہروہ عمل جو صحابہ نے کیا وہی حجت ہوگا یا جو صحابہ نے نہیں کیا وہ حرام ہے وہ نہیں کرسکتے۔۔۔یہ اصول مجھے کہیں قرآن و حدیث میں نہیں مل سکا کہ جو صحابہ نے عمل نہیں کیا وہ کرنا حرام ہے۔۔
ایسے ہزار کام ہیں جو شریعت اسلامیہ میں کیے جا رہے ہیں اور مسلمان متفقہ مانتے ہیں مگر وہ کام نہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ اکرام نے اور تابعین او اتبع تابعین نے نہیں کیے مگر  ہم کرتے ہیں ۔۔
ہم کہتے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ نے اگر کوئی کام اگر نہ کیا تو فقط نہ کرنا منع کی دلیل نہیں ۔۔جب تب اس پر منع کی دلیل وارد نہ ہو


جمع قرآن ایک بدعت حسنہ
اس بات پر دلیل بخاری کی حدیث4986  ہے۔۔کتاب فضائل القرآن
باب: قرآن مجید کے جمع کرنے کا بیان 
حدیث نمبر: 4986
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ:" إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ. قُلْتُ لِعُمَرَ: كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ"، قَالَ زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعَ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ، لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهُ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ سورة التوبة آية 128 حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں (صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہو جانے کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ تو ایک کارخیر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا۔۔آخر۔
 جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ صحابہ نے اپنے اجتہاد پر کیا تو معلوم ہوا کہ یہ عمل ناجائز نہ تھا بلکہ خیر کا تھا۔۔ہر عمل خیر شریعت میں  کیا جاسکتا ہے۔۔یہاں کر کہاجاتا ہے کہ وہ تو خلفاء کی سنت تھی اور خلفاء کی سنت بھی  سنت رسول اللہﷺ

سنن ابن ماجہ , حدیث نمبر: -43-42
باب : اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين

 مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ کے تحت ہے مگر یہ بات بھی غلط ہے کہ اگر صحابہ کو شریعت میں تحریف کرنے یا خود سے کوئی بھی عمل کو کر کے اس کو رسول اللہ ﷺ کی سنت قرار دیتے تھے۔۔سنتی کا اگر لغوی مفہوم لیا جائے تو یہ ہے کہ رسول اللہ کے طریقے  کے عین مطابق ہی اصحاب کا طریقہ ہے ۔۔اگر اصطلاحی مفہوم لیا جائے تو رسول اللہ ﷺ کی سنت اور اصحاب رسول کی سنت بھی ایک جیسا حجت ہے ۔۔یہ قول مطلق صادق نہیں مان سکتے کہ سنت خلفاء سنت رسول ﷺ کیسے برابر ہو سکتی ہے ۔۔۔ھاں  اسکا مفہوم یہ ہی  لیں گے کہ خلفاء  رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے عین مطابق عمل کرتے ہیں اس لیے ہی ان کی سنت کی پیروی بھی حجت ہے ۔۔۔اگر عین خلفاء کی سنت بلفرض رسول اللہ کی سنت ہی تھی تو یہ بات حضرت عائشہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین بھی جانتے ہوتے اور وہ اجتہادی اختلاف بھی  حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے نہ کرتے۔۔ان کا اختلاف  کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سنت رسول اور سنت خلفاء میں فرق ہے عین رسول اللہ کی سنت سمجھنا صحابہ میں کسی کا عقیدہ نہ تھا۔۔

۔دوسری بات ابوبکر صدیق اگر یہ جانتے تھے کہ ہم خلفاء کی سنت رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے تو وہ اس بات پر عمرفاروق سے اختلاف کیوں کرتے۔۔۔ابوبکر صدیق کا یہ کہنا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟
تو جو کام رسول اللہﷺ  کی سنت نہیں تم کیسے کرو گئے۔حضرت عمر نے یہ نہیں کہا کہ ہماری سنت بھی رسول اللہ ﷺ کی  طرح سنت ہے ۔۔بلکہ کہا کہ یہ کام  رسول اللہ کی سنت نہیں مگر ہے تو خیر کا کام ہے۔۔گویا معلوم ہواکہ اگر رسول اللہﷺ  نے بھی کوئی کام نہ  کیا ہو  اور اس پر منع  بھی نہ ہو   اورکام بھی خیر کا ہو تو عین ایسا کام کرنا صحابہ کی سنت ہے۔۔۔۔قرآن کا جمع کرنا صحابہ کا طریقہ تھا۔۔اب کیا صحابہ قرآن کے رسول اللہ ﷺ سے بڑے عاشق تھے۔۔
عثمان غنی نے جمعہ کی دوسری آزان شروع کی ۔
۔ اہلحدیث اس پر عمل نہیں کرتے۔۔۔کیوں اس عمل کو ابن عمر بدعت کہا کرتے تھے اور وہ بدعت مزمومہ کہتے تھے۔۔
 اب کیا عثمان غنی آذان کے رسول اللہ سے بڑے عاشق تھےجو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں  کیا وہ صحابی کر رہاہے۔دین مکمل ہو چکا پھر۔۔؟




نماز تراویح کا قیام بدعت اور صحابہ کی سنت
حضرت عمرفاروق نے  صلاۃ لیل کا جماعت کے ساتھ احتمام کروایا اور وہ یہ عمل بدعت کہتے تھے اور یہ عمل رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔۔۔کیا عمر فاروق نماز کے رسول اللہ سے زیادہ عاشق تھے۔۔














ابن عمر کی بدعات حسنہ
ابن عمر رضی اللہ عنہ پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص نے چھینک ماری تو اس نے الحمداللہ والسلام علی کل حآل کہا تو ابن عمر نے اس کو روکا ۔۔۔کہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے زیادہ نہ کہا کرو۔۔
وھابیہ اعتراضات کرتے ہیں کہ صحابہ اکرام سنت سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرتے تھے اور ابن عمر کی بات اس پر دلیل ہے کہایک خیر کا کام کرنے والے کو ابن عمر نے منع کر دیا۔۔۔
جواب یہ ہے کہا ابن عمر نے اس کو حرام نہیں کہا
نہ ابن عمر کا مطلب یہ تھا کہ کلمات خیر کہنا ناجائز ہیں۔
اتنا کہا کہ رسول اللہ کی تعلیم اس موقع پر ایسے نہیں ہے بلکہ الحمداللہ علی کل حال ایسا ہے۔۔۔
اور یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں امام ترمزی لکھتے ہیں یہ حدیث غریب ہے زیاد ابن ربیع کے سوا ہم نہیں جانتے اس رویت کو۔۔
  زیاد ابن ربیع    قال بخاری فیہ نظر
اور اس بنیاد پر امام بہقی چھنک مارنے پر مسنون کلمات والی احآدیث نقل کرنے کے بعد زیاد ابن ربیع والی روایت کو کمزور اور دیگرروایات کو صحیح قرار دیتے ہیں
ابن عمر پر لگایا گیا الزام کم از کم دلیل قطعی پر تو مبنی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اصول یہ ہے کہ کبھی بھی ظنی الثبوت دلیل منع ثابت نہیں کرتی۔۔۔













 ابن عمر خود الفاظ و کلمات خیر بدعت حسنہ اور عمل حسنہ سمجھتے تھے  
لوگوں نے احدث کیئے ہویے امور میں نماز چاشت  مجھے پسند ہے،،بدعت جو لوگوں نے نکالی ان سب بدعت میں سے یہ مجھے پسند ہے۔۔حالانکہ میں نے رسول اللہ و ابوبکر و عمر  کےساتھ  رہا کبھی  انہوں نے نماز چاشت نہ پڑھی۔۔عثمان غنی کی وفات کے  بعد اس بدعت کو ایجاد کیا گیا۔۔حتی کہ اذان جمعہ بھی بدعت ہے۔۔
مصنف ابن ابی شیبہ 13387 یہ بدعت ہے۔۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ ابن عمر تلبیہ اور تشہد میں کلمات کا اضافہ خود سے کرتے تھے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ نماز چاشت ایجاد کرنے والے اور آزان جمعہ ایجاد کرنے والے اور نماز و تلبیہ میں الفاظ کا زیادہ کرنے والے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عاشق نماز و اعمال تھے؟


۔
مصنف عبدالرزاق 7859 نماز چاشت بدعت۔۔



مصنف ابن ابی شیبہ 13387 یہ بدعت ہے۔۔



اب ایک اعتراض کا جواب کہ ہر بدعت حسنہ بھی حرام ہے
ابن عمر ہر بدعت کو حرام سمجھتے تھے ۔اور اسطرح کا امام مالک کا بھی قول پیش کیا جاتا ہے ۔۔۔گزشتہ روایات کو دیکھ کر پھر اس ایک روایت پر توجہ کریں –کیا واقعہ ہربدعت گمراہی ہے تو ابن عمر اپنی کثیر روایات کے خلاف روایت کیسے کر سکتے ہیں 
پہلا نقطہ۔۔۔
 ابن عمر کا یہ قول بدعت مزمومہ کے لیے ہے کیونکہ وہ خود کئی اعمال کوبدعت کہتے تو اس کو خود صحیح کہتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کہا کہ چاشت  لوگوں نے ایجاد کی اور وہ مجھے پسند ہے بدعت ہے مگر اچھی۔۔۔اب اپنے ہی فتوی کے خلاف کیسے  فتوی دیا۔۔۔




دوسرا نقطہ۔۔۔
لوگ اگر بدعت سییہ کو حسنہ بھی کہیں تو  پھر بھی بدعت گمراہی ہی ہے۔۔اعوام اگر کسی بدعت کو اچھا بھی کہے تو بھی وہ گمراہی والی بدعت سیہ حرام ہی ہے ۔۔اعوام کے پسند کرنے سے بھی وہ بدعت حسنہ نہیں ہوگی ۔۔۔ابن عمر کے کلام سے بدعت سیہ مراد ہے نہ کہ حسنہ ۔۔۔وارنہ ابن عمر کے کثیر روایات اعمال کے مخالف یہ  قول ساقط اور ردکیا جائے گا۔۔
تیسرا نقطہ۔۔۔
ابن عمر کا عمل اس رویت کے خلاف ہے اگر کسی صحابی کا عمل رویت کے مخالف ہو تو عمل لیا  جائے گا اور روایت چھوڑ دی جائے گی۔۔۔
لہذا یہ قول بدعت سیہ کے لیے محمول سمجھا جائے گا نہ  کہ بدعت حسنہ پر۔۔
چوتھا نقطہ۔۔
روایت میں الفاظ ہیں کہ لوگ جیسے اچھا جانے بدعت کو  اگر وہ بدعت ضلالت ہے تو بدعت ضلالت رہے گی۔ اعوام کے معمولات حجت نہیں ہوتے۔۔ھاں علماء اگر کوئی بدعت نکال      دی اوراس کے مزموم ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو تو وہ  بدعت حسنہ ہوگی جیسا کہ نماز چاشت ۔۔۔باقی تفصیل گزشتہ ابواب میں بدعت کی تحقیق پڑھیں۔۔امام مالک کا یہ قول کہ رسول اللہ نے مکمل دین پہنچا دیا تو اس میں بدعت کیوں نکالی جائے ۔۔۔تو امام مالک کا قول  بھی بدعت مزموم کی طرف ہے ۔۔جس نے بدعت سیہ نکالی گویا اس نے یہ گمان کیا کہ رسول اللہ نے دین میں خیانت کی پہنچانے میں۔۔۔حالانکہ امام مالک مدینہ میں ننگے پاوں چلتے تھے اور سوارہ پر سوار نہ ہوتے تھے ۔۔تو وہ خود بدعت کرتے تھے؟؟؟
ہر بدعت کو مزمو م سمجھنا بھی  جاھل کی نشانی  ہے علامہ تفتازانی فرماتے ہیں شرح مقاصد میں کہ ہر بدعت مزموم نہیں ہوتی۔۔ہمارے زمانے میں بدعت حسنہ احتفال مولود ہے امام شامہ نے لکھا۔
اہلسنت کا متفقہ فتوی ہے بدعت مزمومہ میلاد مین کیے جانے والے خرافات اور من گھڑت روایات پڑھنا ہے 











صحابہ اکرام کا ذکر آمد مصطفی ﷺ پرمحفل کرنا 







    

Post a Comment

0 Comments