تفسیر سورہ یونس آیت 58 — (قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا ۖ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ) اورمیلاد النبیﷺ

 تفسیر سورہ یونس آیت 58 — (قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا ۖ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ)



قرآنِ حکیم نے سورۃ یونس کی آیت 58 میں رسولِ اکرم ﷺ کی بعثت کو اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کا عظیم ترین ظہور قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا ۚ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
یعنی: "اے محبوب! اعلان فرمائیں کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہوا کرو۔"

اس آیت کا اندازِ بیان خود یہ بتا رہا ہے کہ یہاں خطاب براہِ راست امت سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی زبانِ اقدس کے ذریعے کرایا گیا ہے۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ فضل اور رحمت کی اصل تجلی خود حضور ﷺ کا وجودِ مقدس ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان بھی آپ کی زبان سے کروایا، گویا نعمت دینے والا اور اس نعمت کا سب سے بڑا مظہر ایک ہی حقیقت میں جمع ہوگئے۔

فضل و رحمت کیوں ایک ہی حقیقت قرار پائے؟

آیت کے الفاظ میں "فضل" اور "رحمت" دو چیزیں ہیں مگر اشارہ واحد "فَبِذٰلِكَ" لایا گیا ہے۔ عربی قواعد کے مطابق دو چیزوں پر واحد اشارہ تب ہی آتا ہے جب وہ دونوں حقیقت میں ایک ہی اصل کی طرف لوٹ رہی ہوں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ:

  • فضل بھی محمد ﷺ کی ذات ہے،

  • رحمت بھی محمد ﷺ کی ذات ہے۔

چنانچہ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
اور کئی مقامات پر حضور ﷺ کی بعثت کو اللہ کا فضلِ عظیم کہا گیا ہے۔

صحابہ اور مفسرین کا اتفاقی مفہوم

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سمیت متعدد مفسرین نے فرمایا کہ:

  • “فضل” سے مراد علمِ قرآن ہے،

  • اور “رحمت” سے مراد محمد ﷺ کی ذات ہے۔

لیکن اگر فضل کو قرآن مانا جائے تب بھی قرآن محمد ﷺ کے وسیلے سے ملا، لہٰذا اصل فضل و رحمت کا مرکز پھر بھی ذاتِ مصطفی ﷺ ہی قرار پاتی ہے۔

سورۃ الجمعہ کا اعلان

سورۃ الجمعۃ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت ہی اللہ کا فضلِ عظیم ہے:

ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ

یعنی اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اس نے اپنے محبوب نبی ﷺ کو تمام پہلی اور آنے والی نسلوں کے لیے ہدایت کا مینار بنا کر بھیجا۔

خوشی منانے کا حکم اور اس کی تاکید

آیتِ یونس میں خوشی کا حکم محض ایک خبر نہیں بلکہ بار بار تاکید کے ساتھ دیا گیا ہے۔ "فَبِذٰلِكَ"، "فَلْيَفْرَحُوا" اور "ھُوَ خَیْرٌ" جیسے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ:

  • رسول اللہ ﷺ کی آمد پر خوشی منانا صرف جائز نہیں،

  • بلکہ اللہ تعالیٰ کی مطلوب سنت اور اس کا واضح حکم ہے۔

امام رازیؒ نے اس آیت سے حصر کا معنی نکالا ہے کہ انسان کو اصل خوشی اسی نعمت پر کرنی چاہیے۔

جشنِ میلاد کا قرآنی جواز

جب قرآن خود اس نعمت پر خوشی منانے کا حکم دیتا ہے، اور جب یہ نعمت ولادت و بعثت محمد ﷺ ہے، تو پھر آپ کی ولادت پر خوشی منانا:

  • قرآن کے حکم کے عین مطابق،

  • شرعی طور پر ثابت،

  • اور امت کے اکابرین کے نزدیک باعثِ برکت ہے۔

قرآن یہ بھی کہتا ہے:

هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
یعنی دنیا کا مال جمع کرنا اس خوشی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

پس محافل، چراغاں، نعت، صدقہ، کھانا کھلانا سب اللہ کی نظر میں پسندیدہ عمل ہیں بشرطیکہ ان کا مقصد محبوبِ خدا ﷺ کی نعمت پر اظہارِ مسرت ہو۔

نتیجہ

تمام تفاسیر اور قرآنی دلائل کے مطابق:

  • رسول اللہ ﷺ ہی اللہ کا فضلِ کبیر ہیں۔

  • رسول اللہ ﷺ ہی اللہ کی عظیم ترین رحمت ہیں۔

  • اور اسی فضل و رحمت پر خوشی منانا قرآن کا حکم ہے۔

لہٰذا میلاد النبی ﷺ منانا دراصل اس قرآنی ہدایت کا عملی اظہار ہے جو اللہ رب العزت نے خود اپنے محبوب ﷺ کی زبان سے امت کو سکھائی۔


اگر آپ چاہیں تو میں:


سورۂ یونس کی آیت 58 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا”۔ کئی مفسرین اور اہلِ معرفت کے نزدیک اس آیت میں فضل اور رحمت سے سب سے اعلیٰ اور کامل مراد نبی اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی مقدس ذات ہے، کیونکہ آپ ﷺ نہ صرف اللہ کی رحمت کا سب سے بڑا مظہر ہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو “رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ” کہہ کر ساری کائنات کے لیے رحمتِ کاملہ قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہی وہ عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسانیت کو قرآن ملا، ہدایت ملی، ایمان نصیب ہوا اور رب تبارک و تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی؛ لہٰذا اللہ کا فضل یعنی ہدیّت کا دروازہ اور رحمت یعنی نجات کا وسیلہ آپ ﷺ ہی کی ذات سے وابستہ ہے۔ اسی وجہ سے مفسرین لکھتے ہیں کہ اگر دنیا بھر کی دولت ایک طرف رکھ دی جائے اور رسول اللہ ﷺ کی نسبت، محبت، اتباع اور ہدایت دوسری طرف، تو نبی ﷺ کی یہ نعمتیں ہر دنیوی جمع کردہ مال سے بدرجہا بہتر ہیں، جیسا کہ آیت کے آخر میں فرمایا گیا: “هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ”۔ اس لیے حقیقی خوشی اور حقیقی سعادت اس میں ہے کہ مسلمان رسول اللہ ﷺ کی محبت، اطاعت، سنت، اخلاق اور نورِ ہدایت پر فخر کرے، اور اس عظیم رحمت کے عطا ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرے، کیونکہ آپ ﷺ کی ذات ہی وہ فضلِ عظیم ہے جس نے انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر نورِ ایمان کی روشنی عطا کی۔

















Post a Comment

0 Comments