تحقیقِ حدیث: نابینا صحابی کا دعا میں حضور اقدس ﷺ کا وسیلہ پیش کرنا






تحقیقِ حدیث: نابینا صحابی کا دعا میں حضور اقدس ﷺ کا وسیلہ پیش کرنا!
یہ پوسٹ ایک نابینا صحابی کے واقعہ اور دعا میں حضور اقدس حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے وسیلے کے جواز پر مشتمل ہے۔







1. حدیثِ مبارکہ
حضرت عثمان بن حُنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگا کہ:
"اللہ کے رسول! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری بینائی ٹھیک کردے۔"
تو حضور ﷺ نے فرمایا:
"اگر تم چاہو تو اسی پر صبر کرلو، اس میں تمہارے لیے خیر ہے، یا چاہو تو آپ کے لیے دعا کرلیتا ہوں۔"
تو ان صحابی نے کہا کہ:
"اللہ کے رسول! میرے لیے دعا فرما دیجیے۔"
اس پر حضور اقدس ﷺ نے ان سے فرمایا کہ:
"اچھی طرح وضو کرکے دو رکعات نماز پڑھ کر یہ دعا کرو: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری بارگاہ میں تیرے رحمت والے نبی محمد (ﷺ) کا وسیلہ پیش کرتا ہوں۔ یا محمد! میں آپ کو اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں اپنی اس حاجت میں۔ اے اللہ! تاکہ تو میری یہ حاجت پوری فرمادے، اے اللہ! تو میری یہ سفارش قبول فرما۔"
چنانچہ اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انھیں شفا عطا فرمائی اور اُن کی بینائی لوٹ آئی۔


2. کتبِ احادیث میں روایت کی موجودگی
مذکورہ روایت متعدد کتبِ احادیث میں موجود ہے، جن میں سے چند کتب کی عباراتِ ملاحظہ فرمائیں
الف. صحیح ابن خزیمہ
1219- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَبُو مُوسَى قَالَا: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ خُزَيْمَةَ يُحَدِّثُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرًا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، قَالَ: «إِنَّ شِئْتَ أَخَّرْتُ ذَلِكَ، وَهُوَ خَيْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ»، قَالَ أَبُو مُوسَى: قَالَ: فَادْعُهُ، وَقَالَا: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ، قَالَ بُنْدَارٌ: فَيُحْسِنُ، وَقَالَا: وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَيَدَعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ فَتَقْضِي لِي، اللّٰهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ»، زَادَ أَبُو مُوسَى: وَشَفِّعْنِي فِيهِ، قَالَ: ثُمَّ كَأَنَّهُ شَكَّ بَعْدُ فِي: وَشَفِّعْنِي فِيهِ.
ب. مسند احمد
17241- حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدِينِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ يُحَدِّثُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرًا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، ادْعُ اللهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ ذَلِكَ، فَهُوَ أَفْضَلُ لِآخِرَتِكَ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ لَكَ»، قَالَ: لَا، بَل ادْعُ اللهَ لِي. فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ، وَأَنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَأَنْ يَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ ﷺ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ فَتَقْضِي، وَتُشَفِّعُنِي فِيهِ، وَتُشَفِّعُهُ فِيَّ. قَالَ: فَكَانَ يَقُولُ هَذَا مِرَارًا. ثُمَّ قَالَ بَعْدُ: أَحْسِبُ أَنَّ فِيهَا: أَنْ تُشَفِّعَنِي فِيهِ. قَالَ: فَفَعَلَ الرَّجُلُ، فَبَرَأَ.


3. دیگر کتبِ حدیث کے حوالہ جات
ان کے علاوہ مذکورہ حدیث سنن الترمذی، سنن النسائی الکبری، الدعوات الکبیر للبیہقی، مسند عبد بن حمید، مستدرک حاکم، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، الاذکار للنووی، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم اور دلائل النبوۃ للبیہقی وغیرہ میں بھی موجود ہے۔


4. حدیث کی توثیق اور صحت
مذکورہ حدیث صحیح اور معتبر ہے، اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اطمینان کے لیے چند حوالہ جات مع عبارات ملاحظہ فرمائیں:
الف. امام حاکم رحمہ اللہ کی توثیق
امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ’’مستدرک حاکم‘‘ میں مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے:
1180- حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدِينِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ خُزَيْمَةَ يُحَدِّثُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرًا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يُعَافِيَنِي. فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتَ ذَلِكَ وَهُوَ خَيْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ». قَالَ: فَادْعُهُ. قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ فَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي توَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ، فَتُقْضَى لِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ وَشَفِّعْنِي فِيهِ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ. (كِتَابُ الْوِتْرِ)
ب. امام مناوی رحمہ اللہ کی توثیق
محدث عبد الرؤف مناوی رحمہ اللہ نے ’’التیسیر بشرح الجامع الصغیر‘‘ میں امام حاکم کے حوالے سے مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے:
(اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة) أي المبعوث رحمة للعالمين (يا محمد إني توجهت بك) أي استشفعت (إلى ربي في حاجتي هذه لتقضي لي) أي لتقضيها لي بشفاعته (اللهم فشفعه في) أي اقبل شفاعته في حقي (ت ه ك عن عثمان بن حنيف) قال: جاء رجل ضرير إلى النبي ﷺ فقال: ادعو الله أن يعافيني ..... قال الحاكم: صحيح. (حرف الهمزة)
ج. امام نووی رحمہ اللہ کی توثیق
حضرت امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ’’الاذکار‘‘ میں امام ترمذی رحمہ اللہ کے حوالے سے مذکورہ حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے:
532- وروينا في كتاب الترمذي وابن ماجه عن عثمان بن حُنَيْف رضي الله عنه: أن رجلا ضريرَ البصر أتى النبيَّ ﷺ فقال: ادعُ اللهَ تعالى أن يعافيني، قال: «إنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِئْتَ صَبرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ» ...... اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فيّ. قال الترمذي: حديث حسن صحيح. (بابُ أذكارِ صَلاةِ الحَاجة)
د. امام تبریزی رحمہ اللہ کی توثیق
امام محمد خطیب تبریزی رحمہ اللہ نے ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ میں امام ترمذی کے حوالے سے مذکورہ حدیث کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے:
2495- [14] عَن عثمانَ بنِ حُنَيفٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ». قَالَ: فَادْعُهُ قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ الْوُضُوءَ وَيَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي لِيَقْضِيَ لِي فِي حَاجَتِي هَذِهِ، اللهُمَّ فشفّعْه فيَّ». رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيب. (باب جامع الدعاء)
نوٹ: اصولِ حدیث کی رو سے غرابت صحت کے منافی نہیں، جیسا کہ ’’شرح الطیبی علی المشکاۃ‘‘ میں بھی وضاحت مذکور ہے: قوله: (حسن صحيح غريب) قد سبق أن الصحيح قد يكون غريبا، وأن الحسن يكون في طريق والصحيح في طريق آخر. (باب جامع الدعاء)
ه. علامہ انور شاہ کشمیری  کا استدلال
علامہ انور شاہ کشمیری نے ’’فیض الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں اسی مذکورہ حدیث سے دعا میں وسیلہ کے جواز پر استدلال کیا ہے جو اس کے معتبر ہونے کی قوی دلیل ہے:
3710- قوله: (وإنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نبيِّنا، فاسْقِنَا، فَيُسْقَوْنَ) قلتُ: وهذا توسُّلٌ فعليٌّ؛ لأنه كان يقول له بعد ذلك: قُمْ يا عبَّاس فاسْتَسْقِ، فكان يَسْتَسْقِي لهم. فلم يَثْبُتْ منه التوسُّلُ القوليُّ، أي الاستسقاء بأسماء الصالحين فقط، بدون شركتهم. أقول: وعند الترمذي: «أن النبيَّ ﷺ عَلَّمَ أعرابيًّا هذه الكلمات -وكان أعمى-: اللهم إني أتوجَّهُ إليك بنبيكَ محمد نبي الرحمة....، إلى قوله: اللَّهُمَّ فشفِّعْهُ فيَّ»، فثبت منه التوسُّلُ القوليُّ أيضا. وحينئذٍ إنكار الحافظ ابن تَيْمِيَة تطاولٌ.


5. اہم وضاحتیں اور فوائد
مذکورہ حدیث صحیح اور معتبر ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں، اس لیے یہ دلیل بن سکتی ہے۔
مذکورہ حدیث سے دعا میں حضور اقدس ﷺ کا وسیلہ دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ محدث کشمیر ی کا حوالہ ماقبل میں ذکر ہوا۔
وسیع معنی میں وسیلے کا جواز:
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں کسی نبی یا ولی کا وسیلہ پیش کرنا بالکل جائز ہے، کہ یوں دعا کی جائے کہ: اے اللہ! حضور اقدس ﷺ کے وسیلے سے ہماری دعا قبول فرما، یا: امام ابوحنیفہ کے طفیل میری حاجت پوری فرما، یا: عبدالقادر جیلانی  کے صدقے میرے گناہ معاف فرما۔
ایسا کرنا جائز بلکہ دعا کی قبولیت کے لیے اہمیت بھی رکھتا ہے۔ یہی اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے۔



 یادرہے کہ وھابی ایک اعتراض کرتے ہیں کہ بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ دعثمان غنی کے زمانے میں صحابی

رسولﷺ عثمان ابن حنیف نے کسی کو تعلیم کہ ۔۔بعض وفات رسول ﷺ یامحمد کہہ کر دعا کرنا بعد وفات رسول اللہ

 ﷺ بالکل جائز ہے صحابہ کی سنت ہے۔۔۔وہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس رویت میں ایک راوی عن سے رویت کر کے

 تدلیس کرتا ہے لہذا مدلس راویت ضیف ہوتی ہے۔۔۔ہم کہتے ہیں امام بیہقی اور دیگر کتب میں سماع کی تصریح موجود ہے

 اور جب مدلس راوی کی تدلیس میں سماع کی تصریح جب کوئی اوررویت کرے وہ صحیح ہوگی۔۔۔۔۔

قال منذری ھذا حدیث صحیح
 


قال امام بہقی سند متصل 


۔۔
قال طبرانی ھذا حدیث صحیح




تحفہ الذاکرین علامہ شوکانی




چنانچہ  حضرات اکابر دیوبند کی متفقہ کتاب ’’المہند علی المفند‘‘ میں ہے کہ:
’’ہمارے اور ہمارے مشایخ کے نزدیک انبیاء، صلحاء، اولیاء، شہداء اور صدقین کا توسُّل جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی 
جائز ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی۔


عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : ادْعُ اللهَ لِي أَنْ یُعَافِیَنِي۔ فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ۔ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ۔ فَقَالَ : ادْعُهُ۔ فَأَمَرَهُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فَیُحْسِنَ وُضُوْءَ هُ وَیُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ۔ وَیَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ۔ یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی۔ اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِیسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْھَيْثَمِيُّ : حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ : صَحِيْحٌ۔

وفي روایۃ لأحمد : قَالَ : فَفَعَلَ الرَّجُلُ فَبَرَأَ۔

وفي روایۃ : قَالَ عُثْمَانُ : فَوَاللهِ، مَا تَفَرَّقْنَا وَلَا طَالَ بِنَا الْحَدِيْثَ حَتَّی دَخَلَ الرَّجُلُ وَکَأَنَّهُ لَمْ یَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ۔

وذکر العـلامۃ ابن تیمیۃ : عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا أَعْمَی أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : إِنِّي أُصِبْتُ فِي بَصَرِي فَادْعُ اللهَ لِي قَالَ : اذْھَبْ فَتَوَضَّأْ وَصَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ : اَللَّھُمَّ إِنِّي سَائِلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيٍّ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، یَا مُحَمَّدُ، أَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلَی رَبِّي فِي رَدِّ بَصَرِي، اَللَّھُمَّ فَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي وَشَفِّعْ النَّبِيَّ فِي رَدِّ بَصَرِي، وَإِنْ کَانَتْ حَاجَةٌ فَافْعَلْ مِثْلَ ذَلِکَ فَرَدَّ اللهُ عَلَيْهِ بَصَرَهُ۔

2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في دعاء الضعیف، 5 / 569، الرقم : 3578، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 168، الرقم : 10494،10495، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1385، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 225، الرقم : 1219، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17279۔17282، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبیر، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6 / 209، الرقم : 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 147، الرقم : 379، والنسائي في عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 417، الرقم : 658۔660، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 6 / 166، وأبو یوسف في المعرفۃ والتاریخ، 3 / 294، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 272، الرقم : 1018، وابن تیمیۃ في مجموع الفتاوی، 1 / 74، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279۔

’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : {اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ۔ یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی۔ اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ} ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ سے، اے محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم ﷺ کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

’’اور امام احمد کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ تب اس شخص نے فوراً ہی وہ عمل کیا اور اسی وقت صحت یاب ہو گیا۔‘‘

’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پس خدا کی قسم! ابھی ہم وہاں سے اٹھے تھے اورنہ ہی اس بات کو زیادہ دیر گزری تھی کہ وہ آدمی دوبارہ اس حال میں آیا کہ جیسے اُسے کبھی کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے۔

’’علامہ ابن تیمیہ نے بیان کیا کہ حضرت عثمان بن حنیفص بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میری بصارت جواب دے گئی ہے۔ آپ میرے حق میں دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جائو وضو کرو اور پھر دو رکعت نماز پڑھو، پھر کہو : اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد ﷺ جو کہ تیرے رحیم نبی ہیں ان کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب سے اپنی بینائی کی شفایابی کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! تو مجھے شفاء عطا فرما اور اپنے نبی ﷺ کی شفاعت میرے بینائی کے لوٹانے میں قبول فرما۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا اگر تجھے پھر بھی آرام نہ آئے تو دوبارہ ایسا کرنا، تو اللہ نے اسے بینائی عطا فرما دی۔‘‘ 

Post a Comment

0 Comments