کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال: إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة؟ قال: ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول الله ﷺ يقول: لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام.
’’میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا: آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو۔‘‘
جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی ولادت باسعادت کی بناء پر عید الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے۔
رضوی صرف ایک سوال کرتا ہے اگر آدم ع کا یوم میلاد عید ہے ہم ہر ہفتے میں منا رہے ہیں تو آقادوجہانﷺ کے میلاد کا دن عید میلاد کیوں نہیں ہے؟
یوم تکمیل دین یوم عرفہ عید
۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں:
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه: إن رجلا من اليهود قال له: يا أمير المومنين! آية في کتابکم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال: أي آية؟ قال: (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر: قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه علي النبي ﷺ ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک یہودی نے اُن سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا: کون سی آیت؟ اس نے کہا: (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ ﷺ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1: 25، رقم: 45
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4: 1600، رقم: 4145
3. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله: اليوم أکملت لکم دينکم، 4: 1683، رقم: 4330
4. بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6: 2653، رقم: 6840
5. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4: 2313، رقم: 3017
6. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5: 250، رقم: 3043
7. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8: 114، رقم: 5012
اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم ﷺ خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حبِ رسول ﷺ کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کے لیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم ﷺ کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے۔
بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنھما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے:
فإنها نزلت في يوم عيدين: في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عید الاضحی کا دن ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنھم نے یوم جمعہ کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اَجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک ﷺ کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔
اگر سارے سکین لگاوں گا تو کتاب بہت طویل ہوجائے گی ۔۔لہذا میں اسلام 360 ایپ کے حوالہ جات لگا دیتا ہوں خود موبائل سے نکال لیں۔۔
نسائی5015۔بخاری45۔بخاری4407۔بخاری4606۔بخاری7268۔
۔مسلم7527۔ترمزی3043۔3044۔اس کے علامہ دیگر کتب میں30 راویات ہیں اس موضوع کی مگر میں اسی پر اکتفا کر رہا ہوں۔۔
قرآن کی آیات نازل ہونےپر صحابہ نے اس دن کو عید قرار دیا ۔یہ جواب نہیں دیا کہ ہماری صرف دو عیدیں ہیں اور ہم دین میں بدعت ایجاد نہیں کرتے ۔سوال یہ ہے کہ اگرآیات نازل ہوں وہ عید کا دن تو جس پر پورا قرآن نازل ہوا وہ کریم آقاﷺ تشریف لائیں تو وہ دن عید ہوا کہ نہیں؟
غنیہ الطالبین میں ہے کہ ۔۔۔۔ جس دن مومن گناہ نہیں کرے وہ بھی عید حضرت علی کا فرمان
































0 Comments