آمدِ مصطفیٰ ﷺ پر خوشی منانے سے کافر ابو لہب کے عذاب میں کمی ۔۔ابولہب اور میلادالنبیﷺ۔

ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی ﷺ کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے:
1۔ حافظ شمس الدین محمد بن عبد الله جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں:
فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي ﷺ يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته ﷺ ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من الله الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
’’حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 65، 66
3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 147
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 260، 261
5. يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 366، 367
6. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237، 238
2۔ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں:
قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي ﷺ .
’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی ﷺ کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔‘‘
اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے:
إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا

أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا

فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا
’’جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 66
3. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 238
3۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
در اینجا سند است مراہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت ﷺ سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت ﷺ و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت ﷺ جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔
عبد الحق، مدارج النبوة، 2: 19
’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول ﷺ کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
سارے کتابوں کے سکین ملاحظہ فرمائیں






















آمدِ مصطفیٰ ﷺ پر خوشی منانے سے کافر ابو لہب کے عذاب میں کمی — سادہ اور آسان بیان

اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کافر کو آخرت میں نیکیوں کا کوئی ثواب نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک اجر کا اصل معیار ایمان ہے۔ بغیر ایمان کے کیا گیا اچھا عمل آخرت میں فائدہ نہیں دیتا، بلکہ ایسے لوگوں کو اُن کی اچھائیوں کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔ قرآن کی کئی آیات اسی بات کو واضح کرتی ہیں کہ:

  • دنیا چاہنے والوں کو دنیا ہی ملتی ہے،

  • آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں،

  • ان کے اعمال وہاں غبار کی طرح بکھر جائیں گے،

  • جبکہ ایمان والوں کی نیکیوں کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوتا۔

یہ سب باتیں اس لیے بیان کی جاتی ہیں تاکہ ایک اصول واضح رہے:
آخرت میں جزا صرف ایمان والوں کے لیے ہے۔

لیکن یہاں ایک واقعہ ایسا ہے جو اس عام اصول میں ایک خاص استثناء دکھاتا ہے — اور وہ حضور نبی کریم ﷺ کی آمد کی خوشی سے جڑا ہوا ہے۔


ابو لہب کا حیرت انگیز واقعہ — امام بخاری کی روایت

ابو لہب، حضور ﷺ کا چچا، اسلام کا سخت ترین دشمن تھا۔ یہاں تک کہ قرآن میں پوری سورہ تبت یدا ابی لہب اس کی مذمت میں نازل ہوئی۔
لیکن اسی ابو لہب سے ایک ایسا کام سرزد ہوا جسے اللہ نے نظرانداز نہ کیا۔

جب حضور نبی اکرم ﷺ پیدا ہوئے، تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے دوڑ کر اسے خوشخبری سنائی کہ:
"آپ کے بھائی کا بیٹا پیدا ہوا ہے!"

ابو لہب کو یہ خبر اتنی اچھی لگی کہ خوشی میں اس نے فوراً ثویبہ کو آزاد کر دیا۔
یہ کام اس نے پیر کے دن کیا، یعنی اسی دن جب حضور ﷺ کی ولادت ہوئی۔

ابو لہب ایمان نہ لایا، وہ اپنی ضد اور دشمنی پر قائم رہا اور کفر کی حالت ہی میں مر گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص آخرت میں سخت ترین عذاب کا مستحق تھا۔


حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا خواب

حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو لہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا تو وہ بہت برے حال میں تھا۔
پوچھا: "کیسی گزر رہی ہے؟"

اس نے کہا:

"میں تو سخت عذاب میں ہوں، مگر ہر پیر کے دن میرے عذاب میں کچھ کمی کر دی جاتی ہے۔
پانی میری انہی انگلیوں سے ملتا ہے جن سے میں نے ثویبہ کو آزادی کا اشارہ کیا تھا، اور مجھے اس سے کچھ راحت ملتی ہے۔"

یعنی حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی پر کیا گیا ایک چھوٹا سا عمل،
ایک کافر کے لیے بھی —
عذاب میں کمی کا ذریعہ بن گیا۔


یہ روایت کہاں کہاں موجود ہے؟

یہ واقعہ صحیح بخاری میں کتاب النکاح میں موجود ہے۔
اس کے علاوہ:

  • عبدالرزاق

  • بیہقی

  • ابن سعد

  • بغوی

  • ابن جوزی

  • ابن کثیر

  • ابن عساکر

  • سہیلی

  • اور بہت سے دیگر محدثین و مورخین

سب نے اسے نقل کیا ہے۔
یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، مگر چونکہ امام بخاری جیسے بڑے محدث نے اسے اپنی کتاب میں لیا ہے، اس لیے یہ فضائل اور تاریخی واقعات کے باب میں قابل قبول ہے۔


اس واقعے سے کیا ثابت ہوتا ہے؟

یہ واقعہ بہت واضح طور پر ایک حقیقت دکھاتا ہے:

🔹 اگر حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی

صرف ایک کافر کے لیے بھی
عذاب میں کمی کا سبب بن سکتی ہے —

🔹 تو ایک مسلمان جو محبت، عقیدہ، ایمان اور ادب کے ساتھ

میلاد النبی ﷺ کی خوشی مناتا ہے،
تو اللہ تعالیٰ اسے کتنی رحمتیں اور برکتیں عطا فرمائے گا!

یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ:

حضور نبی کریم ﷺ کی آمد پر خوش ہونا اللہ کے نزدیک انتہائی پسندیدہ عمل ہے۔


نتیجہ (بہت سادہ الفاظ میں)

  • کافر کے لیے نیکی کا کوئی آخرت کا اجر نہیں۔

  • لیکن حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں کیا گیا عمل اتنا عظیم ہے کہ
    ابو لہب جیسے بدترین دشمن کے لیے بھی عذاب میں کمی کا باعث بنا۔

  • پھر ایمان والے اگر اس نعمت پر خوشی منائیں، میلاد منائیں، شکر ادا کریں،
    تو یہ تو یقیناً اللہ کی رحمت کے دروازے کھولنے والا عمل ہے۔


Post a Comment

0 Comments