میلاد النبیﷺ پر کیے جانے والے اعمال کا شرعی حکم
کتاب میلاد النبیﷺپر اعتراضات کے جوابات ۔میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت
ہماری مکمل کتاب کے لیے لنک پر کلک کریں
اس کتاب میں ہر حوالہ کے ساتھ اس کا اصل کتاب کا سکین بھی کگایا گیا ہے تاکہ کسی بھی قاری کو دیگر کتب سے حوالاجات تلاش کرنے کی ضرورت نہ ہو اور کتب احادیث کے حدیث نمبر لگائے دے گئے تاکہ آپ حضرات موبائل سے حدیث باآسانی تلاش کر سکیں۔۔
دعا کا طالب
باب
نہم:
میلاد النبیﷺ پر کیے جانے والے اعمال کا شرعی حکم
1.
احتفال ذکر میلاد النبی
ﷺ واجب
جی
زکر مصطفی ﷺ کی محفل کروانے پر واجب ہونے پر کئی قرآنی نصوص اور شواہد ہیں جن میں
سے چند کا ہم ذکر یہاں کریں گئے۔۔
پہلی دلیل وجوب ذکر پر
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
سورۃ الأحزاب، آیت 56
نقطہ 1
ان اللہ
و ملائکتہ کا نقطہ یہاں سمجھنے کی ضرورت
ہے قرآنی اسلوب یہ ہے کہ اللہ کے ذات و افعال و اسماء میں کوئی شریک نہیں مگر اس
فعل خاص میں فرشتے بھی اللہ کے شریک ہیں اور بندوں کو امر مطلق وجوب دیا کہ تم بھی
شامل ہو جاو ۔معلوم ہوا اس فعل خاص میں اللہ نے مخلوق کو خود شرک فرمایا
نقطہ 2
یصلون علی النبی میں
فعل:
يُصَلُّونَ
باب:
تفعیل
(باب تفعیل → صلّى يُصلّي)
صيغہ:
فعل مضارع (Present/Future
tense)
فاعل:
اللہ اور ملائکہ
نصب
/ رفع:
مرفوع (لأنّه غير مسبوقٍ بناصبٍ أو جازمٍ)
یصلون لفظ
مضارع ہے اب مجھ پر کوئی فتوی نہ لگائے میں قرآنی اصول کے ساتھ ہی کچھ بیان کرنا
جا رہا ہوں
”يُصَلُّونَ“ کے
مضارع ہونے سے حاصل معنی:
استمرار و دوام (ہمیشگی و تسلسل):
فعلِ مضارع عربی میں جاری اور مسلسل عمل کو ظاہر کرتا ہے۔۔
اتنا قانون اور قاعدہ تو ہر عالم
جانتا تھا تو اب ترجمہ یہ ہوگا اس آیت کا کہ اللہ جب سے تب سے مسلسل مستقل تسلسل و
ہمیشگی کے ساتھ ذات رسول ﷺ پر درود بھیج رہا ہے ۔اللہ جب سے تب سے اللہ کی صفات
بھی ہیں
اللہ کی ذات بھی قدیمی ہے اور صفات بھی قدیمی ہے
اللہ جب سے ہے تب سے اللہ رحیم ہے کیونکہ رحیم ہونا اللہ کی صفت ہے اور اللہ
جب سے ہے اللہ کی ذات باری کے ساتھ صفات بھی ہیں
یصلون '' ۔اللہ کی صفت ہے تو اللہ جب سے
ہے اللہ کی صفت بھی تب سے ہے ۔ذرا باریکی
کے ساتھ سمجھے کہ اللہ جب سے تب سے نبی ﷺ پر درود پڑھتا ہے توسوال یہ ہے کہ نبیﷺ
کب سے ہیں
میں ان احادیث پر بات نہیں کرنا چاہتا کہ اللہ نے پہلے لوح کو بنایا کرسی کو
بنایا ۔قلم کو یا نور آقاﷺ کو ۔۔
لیکن یہ معلوم ہوا کہ جب کچھ بھی نہ بنا تھا صرف اللہ کی ذات باری جلوہ گر تھی
تو آس وقت اللہ کی صفات باکمال بھی تھیں اور اللہ اس وقت جب کچھ نہ تھا تو صرف
اللہ کی ذات تھی ،۔وہ اس وقت بھی'یصلون علی النبی'کر رہا تھا ۔۔۔
نقطہ 3
یصلون علی النبی
یصلون یعنی اللہ درود پڑھتا ہے نبی ﷺ پر تو اللہ جب سے ہےتب
سے درودبھیج رہا ہے ۔یصلون 'ذکر النبی ہے
اور ذکر کے لیے مزکور کا ہونا لازم ہے ۔۔مزکور بعد میں پیدا ہوا اور ذکر پہلے کیسے
ممکن ہے'۔جیسا کوئی کہہ دے کہ ابوبکر صدیق سے قائداعظم محمد علی جناح کی ملاقات ہوئی اور ابوبکر نے ان
کی تعریف کی''۔۔ سوچنا والا کہہ سکتا ہے کہ قائداعظم چودہ سو سال بعد پیدا ہوا اور
ان کا ذکر اصحاب رسولﷺ کے زمانے میں کیسے ممکن ہے ۔۔۔ذکر کے لیے مزکور کا اس زمانے
میں پایا جانا لازم ہے ۔۔اللہ رسول کا ذکر
کر رہاہے ازل سے اور ایک وقت آئے گا ثور پھونکا جائے گا ہر شے فنا ہو جائے گی 'کل
من علیھا فان ویبقی وجھہہ ربک الذولجلال
ولاکرام '''ہر شے فنا ہوگی مگر اللہ اور
اس کی صفات باقی ہوگی ۔اللہ کا چہرہ باقی رہے گا حالانکہ اللہ کا جسم نہیں تو بعض
کہتے ہیں کہ چہرے سے مراد صفت ہے اللہ کی۔تو اللہ اس وقت جب سب فنا ہوجائے گا 'یصلون
علی النبی کر رہا ہوگا ۔۔مصطفی کریم
کا اس وقت ہونا لازم ہے ورنہ اللہ جس پر یصلون علی النبی کر رہا ہوں تو وہ
فنا ہو گیا ہو کیسے ممکن ہے ۔۔سوال یہ کہ نبی اللہ ﷺ کب سے ہیں ۔۔واللہ اعلم ۔نبیﷺ
کی ابتداء ہے مگر اللہ ہی جانتا ہے ۔نبیﷺ کی انتہا بھی ہے مگر اللہ جانتا ہے ''
۔تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
اے میرے شاہا میں کیاکیا کہوں تجھے
امام الائمہ فی الھند اعلی حضرت
احمدرضاخاں بریلیؒ
نتیجہ ان نقاط باکمال
کا
مصطفیﷺ اول مخلوق
ہیں قرآنی دلیل
کہ اللہ جب سے ہے تب سے
یصلون اس کی صفت ہے وہ ذکر مصطفیﷺ کر رہا ہے
مصطفی ﷺ بھی ازل سے ہیں ان کی ابتداء وانتہاء ہے بتقضائے
مخلوق مگر وہ صرف اللہ ہی جانتا ہے
ذکرالنبیﷺ کرنا اللہ کی سنت دائمی ہے
اللہ ہر وقت ہر لمحہ یصلون کر رہا ہے
اللہ کے اس کام میں مخلوق کو بھی شریک
کیا گیا
ذکر
النبی کی محفل واجب ہے دلیل
یصلون کا
مطلب کہ اللہ کون سا درود پڑھتا ہے تو اسکا جواب صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ فرشتوں
کی محفل سجا کر ذکرمصطفیﷺ کر رہا ہے ۔۔بخاری کتاب تفسیر۔۔
،،دوسری بات
کہ تمام
مفسرین، محدثین اور فقہا
اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت امر (حکم)
کے صیغے میں ہے یعنی "صَلُّوا"
فعلِ امر ہے۔ اور امر کا اصل معنی وجوب
ہوتا ہے۔
آیت میں "صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا" امر مطلق وجوبی صیغہ
ہے۔معلوم ہوا کہ اللہ
ہمیں حکم دے رہا ہے ذکر مصطفیﷺ کی محفل سجانے کا جیسا کہ وہ خود سجا کر ذکر کر رہا
ہے ۔۔
اللہ نے ذکر النبیﷺ کی آمد کی خوشی میں ایک محفل ذکر
سجائی آسمانوں میں کہ اور اس محفل سے
خطاب اللہ نے خود فرمایا اور خطاب کا
عنوان آمد ذکر نبیﷺ تھا اور سننے والے عام لوگ نہیں بلکہ انبیاء ؑ تھے
ارشادفرمایا:
سورۃ
آلِ عمران – آیت 81
وَإِذْ
أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ
ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ
وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي
ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ
"وَإِذْ" دراصل
اسمُ ظرفِ زمان
ہے اور اپنے بعد آنے والے واقعے کو بیان کر رہاہے کہ اے نبیﷺ آپ یاد کریں اس
وقت کو جب ہم نے سارے نبیوں کو بلایا تھا اور ان سے عہدلیا تھا ۔۔
1-پہلی دلیل سے معلوم ہوا ذکر نبی ﷺ کی محفل سجانا واجب
اور سنت الہیہ ہے
2-دوسرے واقعے سے معلوم ہوا ہے عالم ارواح میں اللہ
خصوصی جلسہ آمد مصطفیﷺ منعقد کر چکا ہے ۔۔
دوسری
دلیل وجوب ذکر پر
اللہ
فرماتا ہے
سورۃ
آلِ عمران – آیت 103
وَاعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ
عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم
بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ۚ وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ
فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ
تَهْتَدُونَ
اور اللہ کی رسی کو
مضبوطی سے سب مل کر پکڑے رہو، اور تفرقہ مت ڈالو، اور یاد کرو اللہ کی نعمت(رسولﷺ)
کو جو تم پر ہے —
جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی، پھر تم
اس کی نعمت (اللہ کے رسولﷺ)سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر
کھڑے تھے، تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ یوں اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر
بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
اس آیت کریمہ میں ''اذکرو "امرمطلق وجوب کا ہے اور اللہ
فرماتا ہے تم پر واجب ہے کہ اللہ کی نعمت کا ذکر کرو ۔۔اس آیت میں نعمت سے مراد بھی
ذات رسول ﷺ ہے ۔۔تو رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی نعمت سمجھ کر ذکر محفل کرنا واجب
ٹھہرا۔۔
قرآن
میں اور بھی کئی مقام پر آیات کہ 'وذکرو نعمت اللہ " اللہ کی نعمت کو یاد کرو
یہ واجب ہے تو تمام نعمتوں سے بڑی نعمت
اعظمی نبی ﷺ کی ذات ہے ۔۔انبیاء تمام بھی اللہ کی نعمت ہیں تو ان کی یاد کی محفل
سجانا واجب ٹھہرا۔۔بلکہ قرآن میں ایک مقام پر صاف کہا گیا کہ انبیاء سب سے پہلی
نعمت ہیں ""
سورۃ المائدہ – آیت 20
وَإِذْ قَالَ
مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ
فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا
مِّنَ الْعَالَمِينَ
موسٰی ؑ نے اپنی قوم کو
جب نعمت یاد کرنے کا کہا تو پہلی نعمت انبیاء ہیں یہ ہی بتایا۔۔۔
معلوم ہوا''اذکرو "
امر مطلق وجوب ہے اس سے نعمت کا تزکرہ کرنا واجب ہوا ،۔اور سب سے بڑی اللہ کی نعمت
نبیﷺ ہیں اور باقی انبیاء بھی نعمت کبیر ہیں۔۔۔۔مصطفیﷺ کو نعمت عظمی سمجھ کر ذکر
کرنا واجب ہوا۔۔۔۔
جیسا کہ صحیح مسلم و سنن
نسائی کی حدیث میں صحابہ کا عمل ملتا ہے کہ انہوں نے ذکر آمد مصطفی ﷺ اورشکر
خداوندی کی خصوصی محفل مسجد نبوی میں سجائی۔۔

1. 
میلاد
النبی ﷺپر خوش ہونا واجب
الله تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبولِ
عام طریقہ خوشی و مسرت کا اِعلانیہ اظہار ہے۔ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے بڑی نعمت اور کیا
ہو سکتی ہے! یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے لیے خود ربِ کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا
ہے :
قُلْ
بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا
يَجْمَعُونَO
’’فرما
دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے
ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی
منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ ‘‘
يونس، 10 : 58
زیرنظر آیہ کریمہ میں دو چیزیں
مذکور ہیں :
1۔ الله کا فضل
2۔ الله کی رحمت
ان دونوں کے درمیان واؤ عاطفہ
ہے۔ عام اصول کے مطابق چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح فضل اور رحمت کا ذکر جدا جدا
ہوا، اُن دونوں کے لیے بیان کردہ حرفِ اشارہ۔ ذٰلِکَ (وہ) ۔ بھی اُسی طرح تثنیہ کا
ہوتا۔ لیکن یہاں یہ قاعدہ ملحوظ نہیں رکھا گیا (یعنی یوں نہیں کہا گیا : ’’ان کی
خاطر خوشیاں مناؤ، ‘‘ بلکہ فرمایا : ’’اس کی خاطر‘‘)۔ گرامر کی رُو سے یوں کہا
جاتا ہے : ’’زید اور بکر کمرے میں آئے۔‘‘ نہ کہ اس طرح : ’’زید اور بکر کمرے میں
آیا۔‘‘ آنے والے جب دو ہیں تو صیغہ بھی دو کا استعمال ہونا چاہیے۔ اسی طرح عربی
زبان میں ذٰلک اِشارۂ واحد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں جب تثنیہ
یا جمع کا ذکر آئے تو اس کے لیے اشارہ بھی بالترتیب ذٰنک یا اُولٰئِک بولا جاتا
ہے۔ اس اصول کو ذہن میں رکھ کر اگر مذکورہ آیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فضل
اور رحمت کے ذکر کے بعد واحد اشارہ ذٰلِکَ لایا گیا ہے۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ کیا
قرآن نے اپنے بیان میں قواعد کو بدل دیا ہے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تو ماننا
پڑے گا کہ صیغۂ واحد اِس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اس مقام پر فضل اور رحمت سے
مراد بھی کوئی ایک ہی وجود ہے۔ اس اُسلوبِ بیان سے اس بات کی وضاحت مقصود تھی کہ
لوگ کہیں الله کے فضل اور رحمت کو کسی اور سمت تلاش کرنے نہ لگ جائیں بلکہ اچھی
طرح یہ نکتہ سمجھ لیں کہ الله نے اپنا فضل اور رحمت درحقیقت ایک ہی ذات میں جمع کر
دیئے ہیں۔ لہٰذا اس ایک ہی مبارک ہستی کے سبب سے شکر ادا کیا جائے اور خوشیاں
منائی جائیں۔
لفظ رحمت کی تفسیرسورۃ
الانبیاء کی اُس آیت سے ہوتی ہے جس میں حضور ختمی مرتبت ﷺ کا ایک صفاتی لقب رحمۃ
للعالمین بیان ہواہے۔ الله تعالیٰ نے واضح الفاظ میں حضور ﷺ کو رحمت قرار دیتے
ہوئے فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعَالَمِينَO
’’اور
(اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ ‘‘
الأنبياء، 21 : 107
قرآن حکیم نے حضور ﷺ کو اللہ
کا فضل اور اس کی رحمت قرار دیتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا
سورۃ الأحزاب –
آیت نمبر 47
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا
ترجمہ خوشخبری مومنین کو اللہ کی جانب سے ان پر فضل
کبیر ہوا:
:
2. فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ
الْخَاسِرِينَO
’’پس
اگر تم پر الله کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتے۔ ‘‘
البقره، 2 : 64
درج ذیل آیہ کریمہ بھی حضور ﷺ
کے اللہ کا فضل اور رحمت ہونے کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے :
3. وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ
عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
’’اور
(اے مسلمانو!) اگر تم پر الله کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے
سوا (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔ ‘‘
النساء، 4 : 83
گزشتہ صفحات میں سورۃ یونس کی
آیت نمبر 58 کی تفسیر بالقرآن کے تحت سورۃ الجمعۃ کی آیات کی تفسیر و توضیح کے بعد
اب ہم ذیل میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکور الفاظ۔ فضل اور رحمت۔ کی تفسیر
اور توضیح و تشریح چند مستند ائمہ تفاسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ
نفسِ مضمون زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے :
1۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ)
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنھما کا
قول نقل کرتے ہیں :
إن فضل الله : العلم، ورحمته :
محمد صلي الله عليه وآله وسلم. رواه الضحاک عن ابن عباس.
’’ضحاک
نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما سے روایت کیا ہے کہ بے شک ’’فضل الله ‘‘
سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم
التفسير، 4 : 40

2۔ ابوحیان اندلسی (682۔ 749ھ)
ضحاک کے حوالے سے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں :
وقال ابن عباس فيما روي الضحاک عنه
: الفضل : العلم، والرحمة : محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ضحاک
نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم
(یعنی قرآن) اور رحمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط،
5 : 171

3۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) نے
بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے
وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي
الله عنهما في الآية، قال : فضل الله : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله
وسلم. قال الله تعالي : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ)(1)
- (2)
’’ابو
شیخ نے اس آیت کے بارے میں حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے
کہ فضل الله سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد ﷺ کی ذات گرامی
ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : (اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا
مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر)۔‘‘
(1) الأنبياء، 21 : 107

(2) سيوطي، الدر المنثور في
التفسير بالمأثور، 4 : 330
4۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ)
بیان کرتے ہیں :
و أخرج أبو الشيخ عن ابن عباس
رضي الله عنهما أن الفضل العلم والرحمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم، وأخرج
الخطيب وابن عساکر عنه تفسير الفضل بالنبي عليه الصلاة والسلام.
’’ابو
شیخ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم
ہے اور رحمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ خطیب اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی الله عنہما
سے نقل کیا ہے کہ فضل سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفسير
القرآن العظيم والسبع المثاني، 11 : 141
فائدہ:
سورہ یونس 58 آیت سے معلوم ہوا فضل اور رحمت کے آنے پر خوشی کرنا واجب ہے اور قرآن
کی تفسیر قرآن سے کریں تو الأنبياء، 21 : 107 میں سب سے بڑی رحمت مصطفیﷺ کی ذات ہے
اور سورۃ الأحزاب –
آیت نمبر 47 میں فضل کبیر مصطفیﷺ کی ذات ہے اب
فیصلہ آپ کر لیں آقاﷺ کو رحمت و فضل سمجھ کر خوشی کرنا جائز ہوا کہ نہیں ۔۔۔منکر
میلاد سےاقبال رضوی ایک ہی سوال کرتا ہے کہ دل سے پوچھو کہ اگر نبیﷺ کی ذات رحمت و
فضل نہیں تو بھلا کون ہے
اور دل آقاﷺ کو فضل و رحمت مان جائے تو خوشی کرنا واجب
ہےاگر نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا ۔۔
ہرشے کو مانا ہے خدا کی رحمت مگر مصطفی کے بعد
ہر شے کو فضل و نعمت مانا ہے مگر مصطفی کے بعد۔۔

مذکورہ تفاسیر سے واضح ہوتا ہے
کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما فضل سے مراد العلم لیتے ہیں اور العلم
سے مراد قرآن حکیم ہے جس کی تائید درج ذیل آیت سے ہوتی ہے :
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ
عَلَيْكَ عَظِيمًاO
’’اور
اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت
بڑا فضل ہے۔ ‘‘
النساء، 4 : 113

اگر فضل سے مراد علم یا قرآن حکیم لیں تو پھر بھی اس کا ضمنی مفہوم
حضور نبی اکرم ﷺ ہیں جن کے واسطے سے ہمیں قرآن مجید ملا۔ امام المفسرین جلیل القدر
صحابی حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کا یہ قول۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات
گرامی الله کا فضل اور سر تا پا اس کی رحمت ہے۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں
مذکورہ اَلفاظ۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ کے مفہوم کو
جشنِ میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے اُجاگر کرتا ہے۔ جشنِ میلاد کو عید مسرت
کی حیثیت سے منانے کو الله کے فضل و رحمت پر خوشی و مسرت کے اظہار کا ذریعہ گردانا
گیا ہے اور اس کا ذکر اس قرینے اور شدّ و مد سے کیا گیا ہے کہ کوئی صاحبِ فکر
مسلمان اس بات سے انکار نہیں کرے گا۔ مذکورہ بالا عباراتِ تفاسیر نے فضل و رحمت کے
معانی اس طرح کھول کر بیان کر دیے ہیں کہ اس کے اَسرار و رموز بالکل عیاں ہوگئے
ہیں، اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ الله تعالیٰ کے فضل و رحمت پر مسرتوں
اور شادمانیوں کی صورت میں جشنِ عید منانا منشائے خداوندی ہے۔
خوش منانا اور اظہار مسرت مستحب
سورہ یونس 58 سے خوش ہونا ثابت ہوا اور فلیفرخو میں وجوب واضع ہے تو خوش ہونا تو واجب ثابت ہو گیا ۔۔ اب اعتراض
ہوتا ہے کہ خوشی ہونا چاہیے مگر سب مل کر منائی نہ جائے۔مبارک باد نہ دی جائے
۔۔۔تو یہ شریعت میں منع کہیں نہیں کہ اگر دل میں خوشی ہو تو اس کا اظہار نہ کیا
جائے ۔۔۔بلکہ صحابہ کے ایک طریقہ سے خوشی کا اظہار بڑا عجیب معلوم ہوا۔۔۔کوئی
صحابی خوش ہوا تو کھانا بنا کر لے آیا۔۔ کوئی خوش ہو کر ایک بیوی کو
طلاق دے کر دوسرے کو نکاح میں دے دی ۔۔ہر طرح سے
خوشی کرنے کا انداز نظر آئے مگر جب رسول اللہ مدینہ ھجرت کر کے آئے تو
صحابہ اکرام نے جلوس نکالا خوشی میں۔۔خوشی دل میں آنا میلاد النبی ﷺ کی واجب اور
اسکا اظہار مستحب ہے ۔۔صحیح ،سلم کتاب
ھجرہ

1.
روزہ رکھنا اور صدقات
سنت

روزہ رکھ کر بھی خوشی منا سکتے ہیں بلکہ عید
منا سکتے ہیں ۔۔ جی عید الفظر و عیدالاضحی کے علاوہ ہر عید پر روزہ رکھ سکتے ہیں
۔۔جیساکہ یوم جمعہ عید ہے مگر روزہ رکھ سکتے ہیں۔۔۔عید میلاد کو بھی رکھ سکتے ہیں
۔۔عید یوم عاشورہ بخاری کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس عید کا روزہ رکھا اور مسلم
شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیدا ہونے کی وجہ سے پر پیر کا روزہ رکھتے تھے۔۔۔
![]()
![]()
2.
اجروثواب کی نیت سے
خیرات کرنا مستحب
واقعہ ابولہب
جو بخاری میں ہے اس سے کچھ مسائل حل ہوتے ہیں۔
![]()
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر
تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح
میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له: ما ذا لقيت؟ قال
أبولهب: لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں
دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا: کیسے ہو؟ ابولہب
نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس
عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے
(محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5:
1961، رقم: 4813
2. عبد الرزاق، المصنف، 7: 478، رقم: 13955
3. عبد الرزاق، المصنف، 9: 26، رقم: 16350
4. مروزي، السنة: 82، رقم: 290
5. بيهقي، السنن الکبري، 7: 162، رقم: 13701
6. بيهقي، شعب الإيمان، 1: 261، رقم: 281
7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1: 149
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 108
9. ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص: 154، رقم: 263)‘‘ میں اسے
حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
10. بغوي، شرح السنة، 9: 76، رقم: 2282
11. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1: 62
12. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3: 98، 99
13. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3: 168
14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67: 171، 172
15. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 229، 230
16. عسقلاني، فتح الباري، 9: 145
17. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20: 95
18. شيباني، حدائق الأنوار، 1: 134
19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1: 41
20. انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4: 278
مزید تفصیل کے لیے باب دوئم کا
مطالعہ کریں۔۔۔
’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے
دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ
حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو
اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول ﷺ کی
وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور
غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی
برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
اب دائل دیکھنے
کے بعد وہابیت منکر میلاد کی خدمت میں اقبال رضوی بطور چیلنج کچھ سوالات رکھنے لگا
ہے منکریں میلاد مر جائے گا مگر جواب نہ دے پائے گا
3.
اجروثواب کی نیت سے
خیرات کرنا مستحب
4.
صحابہ نے میلاد پر خوش
ہونے کو مستحب سمجھا
امام بخاری نے
یہ رویت کیوں کیا جبکہ اس حدیث سے کوئی شرعی مسلہ واضع تو ہو نہیں رہا ۔۔
دو ہی باتیں سمجھ آتی ہیں
پہلی یہ کہ یا تو امام بخآری اور اس واقعے کو بیان کرنے والے حضرت عباس اور ام
حبیبہ ؒ مناقب ابولہب کے قائل تھے اور
ابولہب کی تعریف میں قرآن کی آتھ آیات کے خلاف کافر کے حق میں رویت کر دی ۔۔چلو اگر
حضرت عباس نے خواب دیکھ ہی لیا تھا تو مفسر القرآن اور امت کے عالم تھے وہ استغفار
کرتے اور ابولہب ملعون پر لعنت کرتے ۔نہ کہ اگے حضرت ام حبیبہ ؒ کو بتاتے ۔بلفرض
ام حبیبہ کو بتا دیا تو وہ آگے روایت نہ
کرتیں اور پھر یہی واقعہ بہت سے اصحاب سے مروی ہے ۔۔اور تو اور امام بخاری صاحب
بھی اس کو دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر اپنی صحیح بخاری میں لے آئے اور بعد کے جید
محدیثین جن کے حوالہ جات گزر چکے انہوں نے اس واقعہ کو میلاد پر اجر کی دلیل بنایا
۔۔اب ہم وہابیوں کی مانیں یا اصحآب رسول ﷺ اور ائمہ محدیثین کی۔۔دوسری بات یہ سمجھ
آتی ہے کہ یہ واقعہ مناقب ابولہب میں نہیں بلکہ میلاد النبیﷺ پر خوش ہوکر صدقہ
خیرات و خرچ کرنے پر اجر ملتا ہے اس پر
دلیل ہے اس لیے حضرت عباس ؒ اور دیگر صحابہ اس واقعے سے یہی مراد لیتے تھے کہ نبی
ﷺ کے میلاد پر خوش ہونے اور صدقہ دینے میں اجر ہے ورنہ وھابی ہی مجھے بتائیں اس
رویت کا اس کے سوا کیا مطلب ہو سکتا ہے
یہاں سے کچھ
باتیں واضع ہوئی
1.
صحابہ میلاد پر صدقہ کے قائل تھے ورنہ یہ روایت نہ کرتے
2.
میلاد پر صدقات و خیرات پر اجر ہے صحابہ بھی قائل ہیں
3.
امام بخاری بھی میلاد کے اجر و ثواب کے قائل
4.
صحابہ کا روایت کرنا ان کے عقیدہ کی دلیل ہے
5.
کافر اگر نبیﷺ کے لیے عمل کرے تواس کو بھی اجر ہے
6.
حدیث کی اصل سے میلاد ثابت ہو گیا تو اب اھتمام میلاد بدعت نہ رہا
7.
قرون اولی میں بھی صدقہ میلاد کا نظریہ تھا
8.
صحابہ کبھی لغو عمل تعلیم نہیں کر سکتے
9.
صحابہ پہلے خؤد عمل کرتے تو ہی تعلیم کرتے
1.
جھنڈے لگانا سنت الہیہ
“نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت
جبریلِ امین علیہ السلام جنت سے نازل ہوئے۔ اور
چار جھنڈے نصب کیے —
ایک مشرق
میں، ایک مغرب میں،ا
یک کعبہ کی
چھت پر، اور ایک آپ ﷺ کے گھر پر۔۔بعض راویات میں تین مقامات پر جھنڈے لگانے
کا ذکر.:
دلائل النبوۃ —
امام
بیہقیؒ (ج 1، ص 111)
الخصائص الکبریٰ — امام سیوطیؒ (ج 1، ص 47)
مواہب اللدنیہ —
امام
قسطلانیؒ
السیرۃ الحلبیہ — علامہ علی بن برھان الدین الحلبیؒ
سوال یہ ہے کہ جبرئیل نے جھنڈے لگائے کیوں اور کس کے کہنے
پر۔۔تو جواب یہ ہے کہ اللہ حکم سے اور میلاد کی خوشی میں لگائے۔۔
"فضائل و مناقب میں ضعیف روایت بیان کی جا سکتی ہے
جب تک وہ
موضوع (من گھڑت) نہ ہو۔۔"
![]()
![]()
![]()
![]()
2.
چراغاں کرنا سنت الہیہ
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی
اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد الله ثقیفہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں :
حضرت
ولادة رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم فرأيت البيت حين وضع قد امتلأ نوراً،
ورأيت النجوم تدنو حتي ظننت أنها ستقع عليّ.
’’جب
آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور
سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں
مجھ پر نہ گر پڑیں۔‘‘
سهيلي،
الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 1 : 278، 279
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 459
3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
4. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
5. بيهقي، دلائل النبوة، 1 : 111
6. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 2 : 247
7. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
8. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 40
9. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 94
10. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25

3.
خوشی کا طریقہ جلوس
نکالنا سنت صحابہ
صحابہ کا مدینہ ہجرت والے
دن سب کا جلوس نکالنے سے ثابت ہوا کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے خوشی کرنے کا”
یہ بات تاریخی و شرعی اعتبار سے درست مفہوم
رکھتی ہے، اگر اسے خوشی
کے اظہار کے عمومی دائرے میں سمجھا جائے، نہ
کہ عبادت کے دائرے میں۔
جب نبی ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے،
تو اہلِ مدینہ — مرد، عورتیں، بچے — سب گلیوں
میں نکل آئے، راستوں پر صفیں بنا لیں، دف بجا کر اشعار پڑھے، اور خوشی کا اظہار
کیا۔
ما أُقِرَّ في زمن النبي ﷺ فهو دليل على الجواز
"جو عمل
نبی ﷺ کے سامنے ہوا اور آپ نے اس کو برقرار رکھا، وہ جائز ہے
کسی دینی خوشی یا نعمت کے
موقع پر، اگر لوگ اجتماعی طور پر نکلیں، خوشی کا اظہار کریں، نعرے یا نعتیں پڑھیں
— اور اس میں کوئی شرک، بدعت یا گناہ شامل نہ ہو — تو یہ عمل جائز اور فطری ہے۔”






الاعلام میں
قطب الدین الحنفی نے بھی اہل مکہ اور مدینہ کے جلوس کا تزکرہ کیا جس کا سکین لگا
دیا ۔۔
4.
کھانا پکانا اور خرچ
کرنا مستحب
5. متقدمین
ولیمہ پکاتے تھے مستحب سمجھتے
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ
وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
’’فرما دیجئے : (یہ سب
کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے تم پر
ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں
بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ ‘‘
يونس، 10 : 58
میلاد پر خرچ کرنے کا جواز بھی
قرآن سے
اور وَ هُوَ خَيْرٌ
مِّمَّا يَجْمَعُونَ کے ذریعہ یہ بتلا دیا کہ جو
لوگ جشنِ میلاد کے موقع پر لائٹنگ کے لیے قمقمے لگاتے ہیں، گل پاشیاں کرتے ہیں،
قالین اور غالیچے بچھاتے ہیں، جلسے جلوس اور محافل و اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں،
لنگر بانٹنے کے لیے کھانا پکاتے ہیں یعنی دھوم دھام سے اِظہار خوشی کے لیے جو کچھ
انتظامات کرتے ہیں وہ سب کچھ حبِ رسول ﷺ کے اظہار کے لیے کرتے ہیں اور یہ اللہ
تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ لہٰذا ان کے یہ اَخراجات مال و دولت کے انبار لگانے اور
انہیں جمع کرنے سے کہیں بہتر ہیں۔ چنانچہ جونہی ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتا ہے
پوری دنیا میں غلامانِ رسول آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں دیوانہ وار مگن ہو جاتے
ہیں، ہر طرف جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کائنات کی ساری خوشیاںجملہ مسرتیں اور شادمانیاں
اسی ایک خوشی پر ہی قربان ہو جائیں تو بھی اس یومِ سعید کے منانے کا حق ادا نہیں
ہوسکتا۔ اس کا جواز نصِ قرآن سے ثابت ہے اور خود اللہ رب العزت نے اس خوشی کے
منانے کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ مندرجہ بالا ارشادِ قرآنی کی رو سے ہمیں بھی اس
نعمتِ عظمی پر خوشی منانے کا حکم دیا۔
اور ائمہ نے اھتمام کرنا اور ولیمہ پکانے
کا زکر اپنی کتب میں کیا جس میں ابن جوزی اور امام
قسطلانی کا حوالہ دے رہا ہوں


باب دہم: اعتراضات اور ان کے جوابات
6.
بارہ ربیع الاول
میلاد اور وصال ہے غم یا خوشی؟
اعتراض1:
بارہ ربیع الاول میلاد کی تاریخ میں اختلاف ہے
بعض کہتے ہیں کہ تاریخ میلاد دو ربیع الاول بعض نے لکھا چار یا آٹھ یا بارہ ربیع
الاول ہے بعض نے محرم الحرم لکھا جب کہ وفات بارہ کو ہی ہوئی اس پر اتفاق ہے
تو میلاد کی خوشی کرنی چاہے یا وفات کا
سوگ؟
جواب:
حقیقت یہ
ہے کہ تاریخ میلاد و وصال دونوں میں علماء کا اختلاف ہے ۔ میلاد بارہ ربیع الاول
ہے اس تاریخ پر اجماع امت ہے
دوسری
عرض کہ وفات میں بھی اختلاف ہے لیکن علماء نے دو ربیع الاول اجماعی قول وفات کا لکھا ہے ۔۔سکین گفتگو کے آخر پر لگا
دیئے جائیں گئے۔۔
اصولی
بات یہ ہے کہ وفات بارہ تاریخ کو ہو یا
وصال اس سے عید میلاد منانے کا رد نہیں ہوتا اگر کوئی وھابی یہ کہے کہ میلاد دو
ربیع الاول کو ہواتو ہم کہتے ہیں آپ دو ربیع الاول کو ہی عید میلاد مناو ۔۔بات یہ
نہیں کہ کب ہوااور کب نہیں ۔۔سوال یہ ہے کہ آپ وھابی حضرات کس تاریخ کو مانتے ہو
جس تاریخ کو بھی مانتے ہو اسی کو تم میلاد مناو'''پیڑاں ھور تے پھکیاں ھور۔۔۔تم میلاد کسی صورت منانے کو تیار ہو ہی نہیں
اگر بارہ کو نہیں ہوا تو تم جس تاریخ ہو
مان لو اسی کو رسول اللہ ﷺ کے پیدا ہونے پر عید
مناؤ ۔۔اس پر اجماع امت ہے کہ میلاد
ربیع الاول میں ہی ہوا ہے تو ربیع
الاول میں وھابی نبیﷺ کے پیدا ہونے کی خوشی کا اظہار کریں کیونکہ واجب ہے یہ عمل اور وجوب کا منکر فاسق
ہے۔۔
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
یہاں پر
چند حوالہ جات دئیے ہیں تاکہ دونوں اقوال پر علماء کی رائے محفوظ کی جائے ۔۔
میلاد اگر بارہ تاریخ ہو تو وفات بھی اسی دن مان لی جائے تو پھر اعتراض یہ ہے کہ
سوگ منانا چاہے ۔۔میں
یہ کہتا ہوں کہ اگر سوگ منانا کیسے جائز ہوگا۔۔
تین دن
سے زیادہ سوگ حرام ہے ۔۔۔سوگ تین دن ہے،
سوائے شوہر کے کہ اس کے لیے سوگ کی مدت چار مہینے اور دس دن ہے
سنن
نسائی۔3563
باب : ترك الزينة للحادة
المسلمة دون اليهودية والنصرانية
باب: سوگ منانے والی مسلمان عورت عدت کے ایام میں زیب و زینت ترک کر دے
گی، یہود یہ اور نصرانیہ عورت کیا کرے؟ اس سے کوئی غرض نہیں
خبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع
واللفظ له، قال: انبانا ابن القاسم، عن مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن حميد بن نافع، عن زينب بنت ابي سلمة انها اخبرته بهذه
الاحاديث الثلاثة، قالت زينب: دخلت على ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين
توفي ابوها ابو سفيان بن حرب، فدعت ام حبيبة بطيب فدهنت منه جارية،
ثم مست بعارضيها، ثم قالت: والله ما لي بالطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلى
الله عليه وسلم قال:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق
ثلاث ليال إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا"
زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ
عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہو گیا تو میں ان کے پاس
(تعزیت میں) گئی، (میں نے دیکھا کہ) انہوں نے خوشبو منگوائی، (پہلے) لونڈی کو
لگائی پھر اپنے دونوں گالوں پر ملا پھر یہ بھی بتا دیا کہ قسم اللہ کی مجھے خوشبو
لگانے کی کوئی حاجت اور خواہش نہ تھی مگر (میں نے یہ بتانے کے لیے لگائی ہے کہ)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
فرماتے سنا ہے: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ
اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ
سوگ منائے سوائے شوہر کے انتقال کرنے پر، کہ اس پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی۔۔
اگر امتی کا سوگ تین
دن سے زیادہ جائز نہیں تو پھر اس امت کے نبی ﷺکا سوگ کیسے جائز ہوگا کہ جس کا
فرمان ہو میری حیات بھی امت کے لیے خیر ہے اور میری ظاہری
وفات بھی امت کے لیے خیر ہے۔۔۔انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں تو پھر اس
نبیﷺ کا سوگ کیسا ۔۔۔سوگ وہ منائے جن کا
نبی مر گیا ہو ہمارا نبی کل بھی زندہ تھا ہمارا نبی آج بھی زندہ ہے۔۔
حا فظ نورالدین علی بن
ابی بکرالہیثمی[ المتوفی: ۸۰۷ھ] نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد‘‘ میں عرضِ
اعمال علی الرسول ﷺ کے اثبات میں’’ مسندبزار‘‘کے حوالہ سے ایک صحیح حدیث نقل
فرمائی ہے
’’باب مایحصل لأمّته ﷺ من استغفاره بعدوفاته ﷺ :
عن عبداﷲبن مسعود …
قال: وقال رسول اﷲ ﷺ :حیاتي خیرلکم تحدثون وتحدث لکم، ووفاتي خیرلکم، تعرض عليّ
أعمالکم، فمارأیت من خیرحمدت اﷲعلیه، ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ لکم. رواه البزّار،
ورجاله رجال الصحیح.‘‘
( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب علامات
النبوّة، مایحصل لأمّتها من استغفاره بعد وفاته، (۹/۲۴) ط: دار الکتاب بیروت، ۱۹۷۸م)
مذکورہ حدیث کی سندکے
رجال صحیحین کے رجال ہیں اورحدیث بالکل صحیح ہے۔
علامہ سیوطی رحمہ
ﷲنے ’’الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر‘‘ میں ایک صحیح روایت نقل
کی ہے
’’تعرض الأعمال یوم الأثنین والخمیس علی اﷲ،
وتعرض علی الأنبیاء وعلی الآباء والأمّهات یوم الجمعة، فیفرحون بحسناتهم، وتزداد
وجوههم بیاضاًوإشراقاً، فاتّقوااﷲ ولاتؤذواموتاکم‘‘.
( الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر،حرف
التاء،[رقم الحدیث:۳۳۱۶](۱/۱۹۹) ط: دارالکتب
العلمیۃ بیروت،۲۰۰۲م - ۱۴۲۳ھ۔)
علامہ مناوی رحمہ ﷲاس
حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طرازہیں
’’وفائدة العرض علیهم إظهار اﷲ للأموات عذره في
مایعامل به أحیاء هم من عاجل العقوبات وأنواع البلیّات في الدنیا، فلوبلغهم ذٰلك
من غیرعرض أعمالهم علیهم لکان وجدهم أشدّ. قال القرطبي: یجوز أن یکون المیّت یبلغ
من أفعال الأحیاء وأقوالهم بمایؤذیه أویسرّه بلطیفة یحدثها اﷲ لهم من ملك یبلغ
أوعلامة أودلیل أوماشاء اﷲ وهو القاهر فوق عباده وعلی من یشاء. وفیه زجرعن سوء
القول في الأموات، وفعل ماکان یسرّهم في حیاتهم وزجر عن عقوق الأصول والفروع بعد
موتهم بمایسوء هم من قول أوفعل، قال: وإذاکان الفعل صلة وبرًّا کان ضدّه قطیعة
وعقوقًا‘‘.
(فیض القدیر، شرح الجامع الصغیر للعلامة المناوي،
حرف التاء، [ رقم الحدیث:۳۳۱۶] تعرض الأعمال یوم الإثنین،(۳/۲۵۱)
ط:مطبعۃ
مصطفٰی محمّد مصر،۱۳۵۶ھ/ ۱۹۳۸م)
’’زرقانی‘‘ میں ہے
’’(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة
بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال: لیس من یوم إلّا وتعرض
علی النبيّ ﷺ أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و
یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله ﷺ: تعرض الأعمال
کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة
… رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ ﷺ کلّ یوم علی وجه
التفصیل وعلی الأنبیاء -ومنهم نبیّنا- علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز ﷺ بعرض
أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً‘‘.
(شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة
بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع ما اختصّ به ﷺ من الفضائل
والکرامات، (۷/۳۷۳ -۳۷۴)ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔
اگر ہم قرآن سے اصول
لیں کہ انبیاء کے ایام میلاد و وصال اگر ایک دن ہی ہوں تو ہمیں کیا کرنا
چاہیے۔۔قرآن نے اس اصول کو بھی واضع کیا ۔۔بلکہ قرآن ایسی جامع کتاب ہے جس میں ہر
طرح کے علوم و فنون و قائدہ پوشیدہ ہین جن سے قیامت تک اہل تفسیر پردے ہٹاتے رہیں
گیے اور ہر دور میں قرآن اپنی مثال آپ ہی
رہے گا زمانہ بدلے گا ترقیاں ہوں گی مگر قرآن ہر دور کے علمی ثقافتی معاشرتی علمی ضروریات
پوری کرتا رہے گا۔۔۔۔۔۔
قرآن سورہ
مریم آیات 15 میں اصول بتاتا ہے
﴿وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ
وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا﴾
اور سلام
ہو (یحییؑ)پراور ان کے یوم میلاد پر اور ان کے یوم وصال پر اور ان کے دوبارہ
اٹھائے جانے والے دن پر۔۔۔
اللہ کی
سنت معلوم ہوئی اگر یوم میلادو وصال ایک دن ہی ہو تو دونوں پر سلام ہے نہ کہ ایک
پر سوگ
دوسری
بات کہ انبیاء کی ذات پر سلام پڑھنا بھی اللہ کی سنت ہے
اسی طرح
سورہ مریم آیت 33 میں نبی ؑ خود اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
﴿وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ
أُبْعَثُ حَيًّا﴾
سلام ہو
مجھ پر اور میرے یوم میلاد پر اور یوم وصال پر اور دوبارہ اٹھائے جانے والے دن
پر۔۔
معلوم ہوا کہ
سلام میلاد و وصال پر پڑھنا اللہ اور اسکے انبیاء کی بھی سنت ہے
قرآنی قائدہ معلوم ہوا کہ انبیاء کے
میلاد و وصال اگر ایک دن جمع بھی ہو جائے تو بھی سلام ہئ کہنا ہے ۔۔اب
مدمقابل کو اس کے مقابلے میں اس
طرح کی دلیل لانی ہوگی کہ نبی ﷺ کا سوگ آج کی تاریخ میں کرنا جائز ہے اور
خوشی منانا حرام ہے بدعت ہے اس پر دلیل واضع
وھابیہ پر قرض ہے۔۔۔۔
7.
بعض علماء نے وفات
بارہ ربیع الاول لکھی
جی بلکل
بعض علماء نے بارہ ربیع الاول وفات لکھی ہے مگر اجماع دو ربیع الاول ہے۔۔۔اگر مان بھی لو
تو اس بات سے وھابیہ کی کوئی دال نہیں گلنے والی کیونکہ اس میں وفات ہو تو سوگ کرنے کا جواز شریعت میں نہیں اور خوشی
کرنے پر واضع قرینہ قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔۔بارہ وفات لفظ عموما پرانے وقتوں
میں بولا جاتا تھا اور وھابیہ دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ ربیع الاول کی بارہ کو
وفات ہے ۔۔پہلی بات کہ عوام کسی بھی دن کو کچھ بھی کہتی رہے تو وہ
کوئی حجت نہیں ہوتا مگر علماء جمع ہوجایئں تو اس پر امکان غور ہے۔۔ویسے تو عوام
گیارویوں شریف کو عموم دیتی ہے مگر وھابی اس تاریخ کو نہیں مانتے تو بارہ وفات کا
قول کیسے حجت ہوگیا۔۔اگر بلفرض یہ سب مان لیں تو شریعت سب اقوال منکر میلاد کا رد
کرتی ہے ۔۔شریعت کہتی ہے اگر خوشی و غم ایک ہو جایئں تو پہلے تین دن غم مناو اس کے
بعد ہمیشہ کے لیے خوشی کرو۔۔
8.
غوث پاک نے میلاد
محرم الحرم میں لکھا
جی پیراں نے پیر میر دستگیر میراں
معین الدین محبوب سبحانی شیخ لامکانی قطب ربانی حضور غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی و حسینی
رحمتہ اللہ علیہ نے غنیہ
الطالبین میں علماء کا قول لکھا تاریخ میلاد
دس محرم الاحرم کو ہوئی۔
سوال یہ
ہے کہ وھابیہ اس تاریخ کو صحیح مانتے ہیں
تو بسم اللہ کریں ہم محرم میں ذکر میلاد النبیﷺ شروع کرتے ہیں اور اس میلاد کے
جھگڑے کو ختم کرتے ہیں۔۔وھابی اعلان کریں کہ ہم میلاد یوم عاشورہ منائیں گے۔۔وھابیہ
اصل میں سارے اعتراض کرتے ہیں بات کو ادھر
ادھر گھومانے کے لیے ۔۔ورنہ تاریخ کا اختلاف کسی مسلہ کی نوعیت نہیں بدلتا ۔۔
جبکہ
غنیہ الطالبین میں جو تاریخ ہے انہوں نے بعض علماء کی طرف حکایت کیا اور یہ نہیں
کہا غوث پاکؒ نے کہ میرا بھی یہی عقیدہ ہے ولادت النبی ﷺ کا۔۔۔ اس طرح کے مختلف تاریخ کے معتبر
کتب میں اختلافات موجود ہیں تو امت نے اتفاق جو کیا وہ
بارہ ربیع الاول ہی ہے ۔۔۔باقی محرم میں میلاد کے قول کو وھابیہ بھی رد کرتے
ہیں۔۔کسی محدث یا فقہی یا صوفی بزرگ یا ولی اللہ کا اپنی کتب میں نقل کرنا اس
تاریخ کے صحیح ہونے پر دلیل نہیں
ہوتا۔۔۔۔اب میرا چیلنج ہے وھابیہ کو کہ ثابت کریں کس محدث عالم فقہی یا کسی وھابی یا
خود حضور غوث پاک ؒ نے اس تاریخ کو صحیح مانا ہو اس پر عمل کیا ہو۔۔۔ہم پھر بعد
میں ثابت کریں گے کہ غوث پاک رسول اللہ ﷺ کا میلاد
کس ماہ میں مانتے ہیں۔۔۔۔۔
جبکہ حقیقت
یہ ہے کہ حضور غوث اعظم کی میلاد پر مکمل کتاب''بلبل صادی بمولد ھادی'' بھی شائع
ہوئی اور اس میں دیگر ان کے تصوف کے علماء کے مولد رسول ﷺ پر قصیدے شامل ہیں اس
میں بھی بارہ ربیع الاول کا قول ہی نقل ہے۔۔۔لیکن ہم اختصار کے ساتھ آگئے چلتے
ہیں۔۔
![]()
![]()
9.
مکہ ومدینہ میں
میلاد نہیں ہوتا پھر تم کیوں؟
جواب:پہلی
عرض تو یہ ہے کہ کسی بھی شہر کے معمولات دین میں حجت نہیں ہوا کرتے۔۔اھلسنت کا
منھج ادلہ اربعہ ہیں۔۔قرآن و حدیث و اجماع و قیاس۔۔۔مکہ میں کیا ہوتا ہے یا مدینہ
میں یا جدہ میں ۔۔۔یہ کسی بات کی دلیل نہیں۔۔۔
دوسری
بات یہ کہ مکہ مدینہ یمن شام مصر کل جزیرہ عرب میں مشرق سے لے کر مغرب تک میلاد
ہوتا آ رہا ہے۔۔۔اب آ کر مکہ مدینہ میں روک دیا گیا ۔۔دلائل بہت سے باب نمبر چہارم میں علماء کے اقول پیش کر دیئے ہیں۔۔جس
میں شاہ ولی اللہ کا 1174 ھجری میں مکہ میں میلاد کی محفل میں شرکت کرنا۔۔۔اور قطب
الدین حنفی کا اپنی کتاب الاعلام میں مکہ میں میلادالنبیﷺ پر جلوس نکالنا ۔۔اور
ابن جوزی کا مکہ اور مدینہ بلکہ پورے عرب میں محفل میلاد اور کھانے پکانے کا ذکر
کیا ہے ۔۔دیگر علماء کا پورے عرب کا حال بھی ہم پہلے بیان کر چکے ۔۔دیکھیں باب چہارم۔۔



![]()
![]()
10.
شاہ اربل عیاش
بادشاہ تھا اس نے شروع کیا
11.
چھ سو سال قبل
میلاد شروع ہوا ؟
وھابیوں
کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے جس کو راہ سنت کتاب میں مولوی وھابی سرفراز گھڑوی نے
لکھا ۔۔کہ چھ سو سال پہلے شاہ اربل جو کہ ایک بہت عیاش بادشاہ تھا اس نے میلاد
شروع کیا ۔۔شاہ اربل پر تو ہم آگے چل کر بات کریں گئے۔۔
مگر یہاں اس جھوٹ کو واضع کرنا چاہتا ہوں کہ شاہ
اربل کے سرکاری اور حکومتی طور پر میلاد شروع کرنےسے بہت پہلے سے میلاد ہوتا آ رہا
تھا ۔۔۔۔آئیے اس مسلہ پر غور کرتے ہیں ۔۔
مظفر الدین ابو سعید کوکبری بن زین الدین علی بن بکتکین
کی
پیدائش
549ھ ہے اور وفات تقریبا 630ھ ہے
1-ابوالفرج
عبدالرحمن ابن جوزی پیدائش او وفات 508ھ تا
597 ھ ہے ۔۔
549 ھ
میں شاہ اربل پیدا ہوا تو پیدا ہوتے حاکم
نہ بن گیا ۔۔وفیات الاعیان میں ابن خلکان نے لکھا کہ ابومظفرالدین 579ھ یا
580ھ میں حاکم بنا جب اس کی عمر تیس سے پینتیس برس تھی ۔۔تو حاکم بنتے ہی میلاد کا اعلان نہیں کیا ۔۔کوئی
خاص تاریخ نہیں ملی مجھے لیکن اگر دو سال
بعد بھی مان لیا جائے تو 580 ھ میں اس نے میلاد کیا ہوگا۔۔اس کے حاکم بننے سے اکہتر سال قبل ابن جوزی پیدا ہوئے اور جس وقت
یہ حاکم بنا تک ابن جوزی تقریبا ساری کتب لکھ چکے تھے اور انہوں نے دو کتابیں
میلاد النبیﷺ پر لکھ رکھی تھیں۔۔المولدالعروس۔۔اور بیان المیلاد النبیﷺ۔۔۔ شاہ اربل جب حاکم بنا ۔580ھ میں ۔ابن جوزی کی وفات 597ھ میں ۔۔جبکہ ابن جوزی اپنی آخری
کتابیں صیدالخاطر اور المنتظم مکمل کی۔۔590ھ تا 597 ھ تک۔۔۔یعنی
یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ شاہ اربل کے حاکم بننے سے قبل ابن جوزی میلاد پر کتابیں
لکھ چکے تھے۔۔۔ابن جوزی 597ھ میں فوت ہوئے اور 1447ھ ہے۔۔تقریبا 850 سال قبل میلاد
پر کتابیں لکھی گئی۔۔گویا چھ سو سال والا
بھی جھوٹ بکواس وھابیہ ہے۔۔میں چند نام لکھتا ہوں جو چھ سو سال قبل کے علماء میلاد
کرتے تھے۔۔۔باقی ان علماء کے حوالہ جات کے لیے باب چہارم کا مطالعہ کریں۔۔
حجۃ
الدین امام محمد بن ظفر المکی (497–565ھ)
-1
شیخ
معین الدین عمر بن محمد المَلّا (م 570ھ) -2
علامہ
ابن جوزی (510–579ھ) -3
حافظ
ابو الخطاب بن دحیہ کلبی (544–633ھ)
-4
حافظ
شمس الدین الجزری (م 660ھ) -5
6-امام ابو شامہ (599–665ھ)
-امام صدر الدین موہوب بن عمر الجزری (م 665ھ)
امام
ظہیر الدین جعفر التزمنتی (م 682ھ) -8
-علامہ ابن تیمیہ (661–728ھ)
امام ابو عبد اللہ
بن الحاج المالکی (م 737ھ) -10
امام
شمس الدین ذہبی (673–748ھ) -11
امام
کمال الدین الاَدفوی (685–748ھ) -12
امام
تقی الدین ابو الحسن السبکی (683–756ھ)
-13
امام
عماد الدین ابن کثیر (701–774ھ) -14
15- شاہ اربل ابو
سعید المظفر
-امام برہان الدین بن جماعہ (725–790ھ)
-زین
الدین ابن رجب الحنبلی (736–795ھ)
-امام ولی الدین ابو زرعہ العراقی (762–826ھ)
حافظ شمس الدین محمد الدمشقی (777–842ھ)
اتنے
علماء جو چھ سوسال سے پہلے کے تھے سب میلاد کے قائل تھے۔۔اب سوال ہے کہ
شاہ اربل ایک عیاش بادشاہ تھا حقیقت
شاہ اربل
نے میلاد کی بدعت ایجاد نہیں کی بلکہ پہلے سے ہوتا آ رہا تھا تو اس کو مزید حکومتی سطح پر فروغ
دیا۔۔ لہذا دو اعتراض دفع ہوئے ۔۔
اب
دیکھتے ہیں کہ شاہ اربل کیسا انسان تھا ۔۔
ابن کثیر اور جمعور علماء نے لکھا کہ عادل زاہد
عابد عاقل بہادر سخی انسان تھا ،۔۔۔سکین ملاحظہ فرمایئں۔۔
![]()

شیخ عمر
بن محمدالملا کی پیروی میں شاہ اربل نے میلاد کیا
امام ابن شامہ نے کہا اور اللہ شاہ اربل پر رحم کرے وہ بہت عاقل بالغ بہادر
سخی عابد انسان تھا میلاد پر لاکھوں دینار خرچ کرتا تو اللہ نے اجر دیا کہ اس کی
قبر مولی علی کرم اللہ وجھہ کے مزار میں بنی ۔ابن کثیر۔۔
شاہ اربل پر مزید تفصیل گفتگو کے
لیے باب چہارم میں شاہ اربل کا ترجمہ دیکھیں۔۔۔۔
احمد رضاخاں بریلوی نے ھندوستان میں شروع کیا؟
یہ
اعتراض بھی جھوٹ پر مبنی ہے اعل حضرت ؒ نے
تو متقدمین سے نقل کیا ۔۔باقی جمعور ائمہ میلادپر آٹھ سو سال پہلے کتابیں لکھ چکے
تھے ۔۔اعلی حضرتؒ سے پہلے علماء کے حؤالہ جات کے لیے باب چہارم کا مطالعہ کریں۔۔۔
صحابہ نے میلاد نہیں منایا تم ان سے بڑے عاشق ہو؟
سب سے
پہلے تو اصول طے کرنا ہوگا کہ کیا ہروہ عمل جو صحابہ نے کیا وہی حجت ہوگا یا جو
صحابہ نے نہیں کیا وہ حرام ہے وہ نہیں کرسکتے۔۔۔یہ اصول مجھے کہیں قرآن و حدیث میں
نہیں مل سکا کہ جو صحابہ نے عمل نہیں کیا وہ کرنا حرام ہے۔۔
ایسے
ہزار کام ہیں جو شریعت اسلامیہ میں کیے جا رہے ہیں اور مسلمان متفقہ مانتے ہیں مگر
وہ کام نہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ اکرام نے اور تابعین او اتبع تابعین نے نہیں کیے
مگر ہم کرتے ہیں ۔۔
ہم کہتے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ نے
اگر کوئی کام اگر نہ کیا تو فقط نہ کرنا منع کی دلیل نہیں ۔۔جب تب اس پر منع کی
دلیل وارد نہ ہو
جمع قرآن ایک بدعت حسنہ
اس بات پر
دلیل بخاری کی حدیث4986 ہے۔۔کتاب فضائل
القرآن
باب: قرآن مجید کے جمع کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 4986
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَرْسَلَ
إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ
الْخَطَّابِ عِنْدَهُ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ عُمَرَ
أَتَانِي، فَقَالَ:" إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ
بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ
بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ
بِجَمْعِ الْقُرْآنِ. قُلْتُ لِعُمَرَ: كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: هَذَا
وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ
صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ"، قَالَ
زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ
وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعَ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي
نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ
مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ:
كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: هُوَ
وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي
لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،
فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ
الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ
الْأَنْصَارِيِّ، لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهُ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ
مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ سورة التوبة آية 128 حَتَّى
خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ
اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا
ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید بن
سباق نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں (صحابہ
کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہو جانے کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔
اس وقت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت
بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار
کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں
قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ
کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک
ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ
جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ تو ایک کارخیر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار
کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا۔۔آخر۔
جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ صحابہ نے
اپنے اجتہاد پر کیا تو معلوم ہوا کہ یہ عمل ناجائز نہ تھا بلکہ خیر کا تھا۔۔ہر عمل
خیر شریعت میں کیا جاسکتا ہے۔۔یہاں کر کہاجاتا ہے کہ وہ تو خلفاء کی سنت تھی اور خلفاء کی سنت بھی سنت رسول اللہﷺ
سنن ابن ماجہ , حدیث
نمبر: -43-42
باب :
اتباع سنة الخلفاء الراشدين
المهديين
مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا،
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ،
عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ،
فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ کے تحت
ہے مگر یہ بات بھی غلط ہے کہ اگر صحابہ کو شریعت میں تحریف کرنے یا خود سے کوئی
بھی عمل کو کر کے اس کو رسول اللہ ﷺ کی سنت قرار دیتے تھے۔۔سنتی کا اگر لغوی مفہوم
لیا جائے تو یہ ہے کہ رسول اللہ کے طریقے
کے عین مطابق ہی اصحاب کا طریقہ ہے ۔۔اگر اصطلاحی مفہوم لیا جائے تو رسول
اللہ ﷺ کی سنت اور اصحاب رسول کی سنت بھی ایک جیسا حجت ہے ۔۔یہ قول مطلق صادق نہیں
مان سکتے کہ سنت خلفاء سنت رسول ﷺ کیسے برابر ہو سکتی ہے ۔۔۔ھاں اسکا مفہوم یہ ہی لیں گے کہ خلفاء رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے عین مطابق عمل کرتے
ہیں اس لیے ہی ان کی سنت کی پیروی بھی حجت ہے ۔۔۔اگر عین خلفاء کی سنت بلفرض رسول
اللہ کی سنت ہی تھی تو یہ بات حضرت عائشہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ
اجمعین بھی جانتے ہوتے اور وہ اجتہادی اختلاف بھی
حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے نہ کرتے۔۔ان کا اختلاف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سنت رسول اور سنت
خلفاء میں فرق ہے عین رسول اللہ کی سنت سمجھنا صحابہ میں کسی کا عقیدہ نہ تھا۔۔
۔دوسری
بات ابوبکر صدیق اگر یہ جانتے تھے کہ ہم خلفاء کی سنت رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے تو وہ
اس بات پر عمرفاروق سے اختلاف کیوں کرتے۔۔۔ابوبکر صدیق کا یہ کہنا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں)
نہیں کیا؟
تو جو
کام رسول اللہﷺ کی سنت نہیں تم کیسے کرو
گئے۔حضرت عمر نے یہ نہیں کہا کہ ہماری سنت بھی رسول اللہ ﷺ کی طرح سنت ہے ۔۔بلکہ کہا کہ یہ کام رسول اللہ کی سنت نہیں مگر ہے تو خیر کا کام ہے۔۔گویا
معلوم ہواکہ اگر رسول اللہﷺ نے بھی کوئی
کام نہ کیا ہو اور اس پر منع
بھی نہ ہو اورکام بھی خیر کا ہو
تو عین ایسا کام کرنا صحابہ کی سنت ہے۔۔۔۔قرآن کا جمع کرنا صحابہ کا طریقہ تھا۔۔اب کیا صحابہ قرآن کے رسول اللہ ﷺ سے بڑے عاشق تھے۔۔
عثمان غنی نے جمعہ کی دوسری آزان شروع کی ۔
۔ اہلحدیث اس پر عمل نہیں
کرتے۔۔۔کیوں اس عمل کو ابن عمر بدعت کہا کرتے تھے اور
وہ بدعت مزمومہ کہتے تھے۔۔
![]()
اب کیا عثمان غنی آذان کے رسول اللہ سے بڑے
عاشق تھےجو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا
وہ صحابی کر رہاہے۔دین مکمل ہو چکا پھر۔۔؟
نماز تراویح کا قیام بدعت اور صحابہ کی
سنت
حضرت
عمرفاروق نے صلاۃ لیل کا جماعت کے ساتھ احتمام
کروایا اور وہ یہ عمل بدعت کہتے تھے اور یہ عمل رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔۔۔کیا عمر
فاروق نماز کے رسول اللہ سے زیادہ عاشق تھے۔۔
![]()
ابن عمر کی بدعات حسنہ
ابن عمر
رضی اللہ عنہ پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص نے چھینک ماری تو اس نے
الحمداللہ والسلام علی کل حآل کہا تو ابن عمر نے اس کو روکا ۔۔۔کہ رسول اللہﷺ کی
تعلیمات سے زیادہ نہ کہا کرو۔۔
![]()
وھابیہ
اعتراضات کرتے ہیں کہ صحابہ اکرام سنت سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرتے تھے اور ابن عمر
کی بات اس پر دلیل ہے کہایک خیر کا کام کرنے والے کو ابن عمر نے منع کر دیا۔۔۔
جواب یہ
ہے کہا ابن عمر نے اس کو حرام نہیں کہا
نہ ابن
عمر کا مطلب یہ تھا کہ کلمات خیر کہنا ناجائز ہیں۔
اتنا کہا
کہ رسول اللہ کی تعلیم اس موقع پر ایسے نہیں ہے بلکہ الحمداللہ علی کل حال ایسا
ہے۔۔۔
اور یہ
حدیث بھی ضعیف ہے اس میں امام ترمزی لکھتے ہیں یہ حدیث غریب ہے زیاد ابن ربیع کے
سوا ہم نہیں جانتے اس رویت کو۔۔
![]()
زیاد
ابن ربیع قال بخاری فیہ نظر
![]()
![]()
![]()
![]()
اور اس
بنیاد پر امام بہقی چھنک مارنے پر مسنون کلمات والی احآدیث نقل کرنے کے بعد زیاد
ابن ربیع والی روایت کو کمزور اور دیگرروایات کو صحیح قرار دیتے ہیں

![]()
ابن عمر
پر لگایا گیا الزام کم از کم دلیل قطعی پر تو مبنی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اصول یہ
ہے کہ کبھی بھی ظنی الثبوت دلیل منع ثابت نہیں کرتی۔۔۔
ابن عمر کا منھج بدعت حسنہ
ابن عمر خود الفاظ و کلمات خیر بدعت حسنہ اور
عمل حسنہ سمجھتے تھے
لوگوں نے
احدث کیئے ہویے امور میں نماز چاشت مجھے
پسند ہے،،بدعت جو لوگوں نے نکالی ان سب بدعت میں سے یہ مجھے پسند ہے۔۔حالانکہ میں
نے رسول اللہ و ابوبکر و عمر کےساتھ رہا کبھی
انہوں نے نماز چاشت نہ پڑھی۔۔عثمان غنی کی وفات کے
بعد اس بدعت کو ایجاد کیا گیا۔۔حتی کہ اذان
جمعہ بھی بدعت ہے۔۔
![]()
![]()
![]()
![]()

مصنف
عبدالرزاق 7859 نماز چاشت بدعت۔۔

مصنف ابن ابی
شیبہ 13387 یہ بدعت ہے۔۔
ان
روایات سے معلوم ہوا کہ ابن عمر تلبیہ اور تشہد میں کلمات کا اضافہ خود سے کرتے
تھے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ نماز چاشت ایجاد
کرنے والے اور آزان جمعہ ایجاد کرنے والے اور نماز و تلبیہ میں الفاظ کا زیادہ
کرنے والے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عاشق نماز و اعمال تھے؟
اب ایک اعتراض کا جواب کہ ہر بدعت حسنہ
بھی حرام ہے

ابن عمر
ہر بدعت کو حرام سمجھتے تھے ۔اور اسطرح کا امام مالک کا بھی قول پیش کیا جاتا ہے
۔۔۔گزشتہ روایات کو دیکھ کر پھر اس ایک روایت پر توجہ کریں –کیا واقعہ ہربدعت
گمراہی ہے تو ابن عمر اپنی کثیر روایات کے خلاف روایت کیسے کر سکتے ہیں
پہلا
نقطہ۔۔۔
ابن عمر کا یہ قول بدعت مزمومہ کے لیے ہے
کیونکہ وہ خود کئی اعمال کوبدعت کہتے تو اس کو خود صحیح کہتے ہیں جیسا کہ انہوں نے
کہا کہ چاشت لوگوں نے ایجاد کی اور وہ
مجھے پسند ہے بدعت ہے مگر اچھی۔۔۔اب اپنے ہی فتوی کے خلاف کیسے فتوی دیا۔۔۔
دوسرا
نقطہ۔۔۔
لوگ اگر
بدعت سییہ کو حسنہ بھی کہیں تو پھر بھی
بدعت گمراہی ہی ہے۔۔اعوام اگر کسی بدعت کو اچھا بھی کہے تو بھی وہ گمراہی والی
بدعت سیہ حرام ہی ہے ۔۔اعوام کے پسند کرنے سے بھی وہ بدعت حسنہ نہیں ہوگی ۔۔۔ابن
عمر کے کلام سے بدعت سیہ مراد ہے نہ کہ حسنہ ۔۔۔وارنہ ابن عمر کے کثیر روایات
اعمال کے مخالف یہ قول ساقط اور ردکیا
جائے گا۔۔
تیسرا
نقطہ۔۔۔
ابن عمر
کا عمل اس رویت کے خلاف ہے اگر کسی صحابی کا عمل رویت کے مخالف ہو تو عمل لیا جائے گا اور روایت چھوڑ دی جائے گی۔۔۔
لہذا یہ
قول بدعت سیہ کے لیے محمول سمجھا جائے گا نہ
کہ بدعت حسنہ پر۔۔
چوتھا
نقطہ۔۔
روایت
میں الفاظ ہیں کہ لوگ جیسے اچھا جانے بدعت کو
اگر وہ بدعت ضلالت ہے تو بدعت ضلالت رہے گی۔ اعوام کے معمولات حجت نہیں
ہوتے۔۔ھاں علماء اگر کوئی بدعت نکال
دی اوراس کے مزموم ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو تو وہ بدعت حسنہ ہوگی جیسا کہ نماز چاشت ۔۔۔باقی
تفصیل گزشتہ ابواب میں بدعت کی تحقیق پڑھیں۔۔امام مالک کا یہ قول کہ رسول اللہ نے
مکمل دین پہنچا دیا تو اس میں بدعت کیوں نکالی جائے ۔۔۔تو امام مالک کا قول بھی بدعت مزموم کی طرف ہے ۔۔جس نے بدعت سیہ
نکالی گویا اس نے یہ گمان کیا کہ رسول اللہ نے دین میں خیانت کی پہنچانے
میں۔۔۔حالانکہ امام مالک مدینہ میں ننگے پاوں چلتے تھے اور سوارہ پر سوار نہ ہوتے
تھے ۔۔تو وہ خود بدعت کرتے تھے؟؟؟
ہر بدعت
کو مزمو م سمجھنا بھی جاھل کی نشانی ہے علامہ تفتازانی فرماتے ہیں شرح مقاصد میں کہ
ہر بدعت مزموم نہیں ہوتی۔۔ہمارے زمانے میں بدعت حسنہ احتفال مولود ہے امام شامہ نے
لکھا۔
![]()
![]()
ابن حجر ؒ کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں
بلکہ وہ بھی کہتے ہیں بدعت اچھی بھی ہوتی ہے۔۔
![]()
امام
شافعی کے نزدیک بھی بدعت حسنہ ہوتی ہے ۔۔
![]()
امام ابن شامہ بھی بدعت کی اقسام کرتے ہیں۔۔
![]()
![]()
اہلسنت
کا متفقہ فتوی ہے بدعت مزمومہ میلاد مین کیے جانے والے خرافات اور من گھڑت روایات
پڑھنا ہے
![]()
ائمہ اربعہ نے میلاد نہیں منایا پھر تم
کیوں؟
نقطہ
''1''
جب
قرآن و حدیث سے مسلہ ثابت ہو گیا تو اس پر
اصحاب و تابعین و محدیثین و ائمہ مجتھدین کا عمل دیکھنا کہاں کا اصول ہے ۔۔ائمہ کی
تقلید تو مختلف فیہ اور اجتھادی مسائل میں
کیجائے گی ۔۔
نقطہ
''2''
عمل
احتفال مولود مستحب ہے اگر کسی نے نہیں کیا تو یہ ہماری موقف کی دلیل ہے ۔۔کیونکہ
مستحب یہ ہے کہ کوئی کرے تو ثواب ہے اگر نہ کرے
تو گناہ کوئی نہیں۔۔
ائمہ
اربعہ کا میلاد کا اہتمام نہ کرنا بھی ہماری دلیل ہے۔۔اگر واجب ہوتا تو وہ ضرور
کرتے ۔۔۔ہو بھی سکتا ہے کہ کیا بھی ہو اور نقل نہ ہوا ہو۔۔جیسا کہ اج کوئی یہ کہے کہ ابوحنیفہ ؒ پیر کا روزہ رکھتے تھے دلیل دو۔۔ہم کہیں گئے لازمی رکھا ہوگا مگر دلیل
نقل نہیں ہوئی۔۔۔

نقطہ
''3''
بعض
روایات سے ائمہ اربعہ کا میلاد منانے کے قرینہ بھی موجود ہیں جیسا کہ نعمت الکبری
ابن حجر ؒ نے لکھا کہ امام شافعی میلاد
کرتے تھے۔۔۔
قرینہ
مل گیا تو عین ممکن ہے تمام کرتے ہوں مگر ہمارا موقف پر یہ دلیل بھی کافی۔


0 Comments