ads1

Ads Area

ماتم کی ابتداء و حکم کتبِ شیعہ سے

محترم قارئینِ کرام : سب سے پہلے ابلیس نے ماتم کیا تھا : مشہور شیعہ عالم علامہ شفیع بن صالح لکھتے ہیں کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ (ماتم) کیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ غناء ابلیس کا نوحہ ہے ۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا ۔ اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا : کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142، ص 162، اور حرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)

امام حسین رضی ﷲ عنہ کا پہلا باقاعدہ ماتم کوفہ میں آپ کے قاتلوں نے کیا ۔ (جلاء الیون ص 424-426 مطبوعہ ایران)

پھر دمشق میں یزید نے اپنے گھر کی عورتوں سے تین روزہ ماتم کرایا ۔ (جلاء العیون ص 445 مطبوعہ ایران)

ابن زیاد نے آپ کے سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا ۔ کوفہ کے شیعوں نے رو رو کر کہرام برپا کردیا ۔ شیعوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوفہ والوں کو روتا دیکھ کر سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان ہولاء یبکون علینا فمن قتلنا غیرہم ۔ ترجمہ : یہ سب خود ہی ہمارے قاتل ہیں اور خود ہی ہم پر رو رہے ہیں ۔ (احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 29،چشتی)

حضرت سیدہ طاہرہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کہ تم لوگ میرے بھائی کو روتے ہو ؟ ایسا ہی سہی ۔ روتے رہو ، تمہیں روتے رہنے کی کھلی چھٹی ہے ۔ کثرت سے رونا اور کم ہنسنا ۔ یقینا تم رو کر اپنا کانا پن چھپا رہے ہو ۔ جبکہ یہ بے عزتی تمہارا مقدر بن چکی ہے ۔ تم آخری نبی کے لخت جگر کے قتل کا داغ آنسوؤں سے کیسے دھو سکتے ہو جو رسالت کا خزانہ ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار ہے ۔ (احتجاج طبرسی ج 2، ص 30)

اسی طرح شیعہ کی کتاب مجالس المومنین میں لکھا ہے کہ کوفہ کے لوگ شیعہ تھے ۔ (مجالس المومنین ج 1، ص 56)

کیا شیعوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا تھا ؟

امام حسین رضی ﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا : کہ مجھے خبر ملی ہے کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے اور شیعوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالیا ہے جو چاہتا ہے ہم سے الگ ہوجائے ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ (جلاء العیون ص 421، مصنفہ ملا باقر مجلسی، منتہی الاعمال مصنفہ شیخ عباس قمی ص 238،چشتی)

مذکورہ بالا خطبہ سے معلوم ہوگیا کہ قاتلانِ امام حسین رضی اللہ عنہ شیعہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے ۔ ملا خلیل قدوینی لکھتا ہے : ان کے (یعنی شہدائے کربلا کے) قتل ہونے کا باعث شیعہ امامیہ کا قصور ہے تقیہ سے ۔ (صافی شرح اصول کافی)

کیا امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل شیعہ تھے ؟

مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی 150 خطوط کا مضمون بایں الفاظ تحریر کرتا ہے ۔ ایں عریضہ ایست بخدمت جناب حسین بن علی از شیعان وفدویان و مخلصان آنحضرت)

ترجمہ : یہ عریضہ شیعوں فدیوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی رضی ﷲ عنہما ۔ (جلاء العیون ص 358)

ان تمام بیانات سے معلوم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی شیعہ تھے اور ماتم کی ابتداء کرنے والے بھی شیعہ تھے اور ان ماتم کرنے والوں میں یزید بھی شامل تھا ۔ اب اگر امام حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رونے یا ماتم کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے تو بخشش کا سرٹیفکیٹ کوفیوں کو بھی مل جائے گا اور یزیدیوں کو بھی مل جائے گا ۔

بارہ اماموں رضی اللہ عنہم کے عہد تک موجودہ طرز ماتم کا یہ انداز روئے زمین پر کہیں موجود نہ تھا ۔ چوتھی صدی ہجری 352 ھجری میں المطیع ﷲ عباسی حکمران کے ایک مشہور امیر معزالدولہ نے یہ طریق ماتم و بدعات عاشورہ ایجاد کیں۔ اور دس محرم کو بازار بند کرکے ماتم کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کا حکم دیا اور شیعہ کی خواتین کو چہرہ پر کالک ملنے ، سینہ کوبی اور نوحہ کرنے کا حکم دیا ۔ اہل سنت ان کو منع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ، اس لئے کہ حکمران شیعہ تھا ۔ (شیعوں کی کتاب منتہی الاعمال، ج 1، ص 452،چشتی)،(البدایہ والنہایہ، ج 11، ص 243، تاریخ الخلفاء ص 378)

بے صبری کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ کتب شیعہ کی روشنی میں

حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخذیہ عند مصیبۃ حبط عملہ ۔

ترجمہ : صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے (یعنی جتنی بڑی مصیبت اتنا بڑا صبر درکار ہوتا ہے) جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہوگئے ۔ (شیعوں کی معتبر کتاب، نہج البلاغہ، ص 495، باب المختار من حکم امیر المومنین حکم 144) (شرح نہج البلاغہ لابن میثم ج 5، ص 588)

بے صبر کے پاس ایمان نہیں

امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ ۔

ترجمہ : صبر کا مقام ایمان میں ایسا ہے جیسا کہ سر کا آدمی کے جسم میں ، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔ (جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)

فرمان امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان ۔

ترجمہ : صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا ، جب سر نہ رہے ، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے ، ایمان نہیں رہتا ۔ (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر،چشتی)

عن ابی عبد ﷲ علیہ السلام قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ ۔

ترجمہ : امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے ۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں ۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)

کیا پیغمبر ، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ ۔

ترجمہ : بیٹی جب میں انتقال کرجاؤں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا ، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا ۔ (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا : لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون ۔

ترجمہ : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)

کربلا میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت

یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت ۔

ترجمہ : حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کی فرمایا ۔ اے پیاری بہن ﷲ سے ڈرنا اور ﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا ، خوب سمجھ لو ۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے ، میرے نانا ، میرے بابا ، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے ۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں ۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا : اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں ۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا ۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا ۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399،چشتی)

مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں : کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی ، اے میری معزز بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا ، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا ۔ (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)

شاعر نے حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کی وصیت کو اپنے انداز میں پیش کیا

ﷲ کو سونپا تمہیں اے زینب و کلثوم

لگ جاؤ گلے تم سے بچھڑتا ہے یہ مظلوم

اب جاتے ہی خنجر سے کٹے گا میرا یہ حلقوم

ہے صبر کا اماں کے طریقہ تمہیں معلوم

مجبور ہیں ناچار ہیں مرضی خدا سے

بھائی تو نہیں جی اٹھنے کا فریاد و بکاء سے

جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری

رونا نہ آئے نہ آواز تمہاری

بے صبروں کا شیوہ ہے بہت گریہ و زاری

جو کرتے ہیں صبر ان کی خدا کرتا ہے یاری

ہو لاکھ ستم رکھیو نظر اپنے خدا پر

اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جزاء پر

قبر میں ماتمی کا انجام کیا ہوگا ؟

قبر میں ماتمی کا منہ قبلہ کی سمت سے پھیر دیا جائے گا : ایک روایت میں ہے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کہ سات آدمیوں کا قبر میں منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دیا جاتا ہے ۔ (1) شراب بیچنے والا ۔ (2) شراب لگاتار پینے والا ۔ (3) ناحق گواہی دینے والا ۔ (4) جوا باز ۔ (5) سود خور ۔ (6) والدین کا نافرمان ۔ (7) ماتم کرنے والا ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب، مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 168، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)

گانا گانے والے اور مرثیہ خواں کو قبر سے اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا

رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے منقول ہے کہ غنا کرنے والا اور مرثیہ خواں کو قبر سے زانی کی طرح اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا ۔ اور کوئی گانے والا جب مرثیہ خوانی کے لئے آواز بلند کرتا ہے تو ﷲ تعالیٰ دو شیطان اس کی طرف بھیج دیتا ہے جو اس کے کندھے پر سوار ہوجاتے ہیں ۔ وہ دونوں اپنے پائوں کی ایڑھیاں اس کی چھاتی اور پشت پر اس وقت تک مارتے رہتے ہیں ۔ جب تک وہ نوحہ خوانی ترک نہ کرے ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب : مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 163، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید،چشتی)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے ایک عورت کتے کی شکل میں دیکھی ۔ کہ فرشتے اس کی دبر (پاخانے کی جگہ) سے آگ داخل کرتے ہیں اور منہ سے آگ باہر آجاتی ہے ۔ اور فرشتے گرزوں کے ساتھ اس کے سر اور بدن کو مارتے ہیں ۔ حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے پوچھا ۔ میرے بزرگوار ابا جان مجھے بتلایئے کہ ان عورتوں کا دنیا میں کیا عمل اور عادت تھی کہ ﷲ تعالیٰ نے ان پر اس قسم کا عذاب مسلط کردیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کہ وہ عورت جو کتے کی شکل میں تھی اور فرشتے اس کی دبر میں آگ جھونک رہے تھے ۔ وہ مرثیہ خواں ، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب، حیات القلوب جلد 2، ص 543، باب بست و چہارم در معراج آنحضرت، عیون اخبار الرضا جلد 2، ص 11، انوار نعمانیہ جلد 1، ص 216)

کیا ماتم سننے کی بھی ممانعت ہے ؟

نہ صرف ماتم کرنے بلکہ سننے کی بھی ممانعت ہے حضرت ابو سعید خدری رضی ﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ : لعن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم النائحۃ والمستمعۃ ۔

ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی ۔ (سنن ابو دائود حدیث 3128، مشکوٰۃ حدیث 732، کتاب الجنائز باب البکا)

کیونکہ اکثر عورتیں ہی نوحہ کرتی ہیں اس لئے مونث کا صیغہ استعمال فرمایا تو جو مرد ہوکر نوحہ کرے تو وہ مرد نہیں زنانہ ہے ۔

شیعہ حضرات کے شیخ صدوق نقل کرتے ہیں : نہی رسول اﷲ عن الرنۃ عند المصیبۃ ونہی عن النیاحۃ والاستماع الیہا ۔

ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بوقت مصیبت بلند آواز سے چلانے، نوحہ و ماتم کرنے اور سننے سے منع فرمایا ۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج 4، ص 3)

ایک شبہ : فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی ۔ فاقبلت امراتہ فی صرۃ فصکت وجہہا ۔

ترجمہ : آپ کی بیوی چلانے لگیں ، پس اپنا منہ پیٹ لیا (شیعہ ترجمہ) معلوم ہوا کہ ماتم کرنا حضرت سارہ کی سنت ہے ۔

جواب : کوئی شیعہ اس آیت سے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کا ماتم کےلیے پیٹنا ہرگز ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ قدیم ترین شیعہ مفسر علامہ قمی کے مطابق مصکت پیٹنے کے معنی میں نہیں ہے ۔ غطت ڈھانپنے کے معنی میں ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت سارہ عورتوں کی جماعت میں آئیں اور حیا سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا کیونکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی ۔ (تفسیر قمی ج 2، ص 330)

اگر اب بھی تسلی نہ ہوئی تو شیعہ صاحبان کو چاہئے کہ ماتم شہداء کی بجائے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سن کر کرنا چاہیے تاکہ اپنے خیال کے مطابق سنت سارہ پر عمل پیرا ہوسکیں ۔ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ فرمایا ۔ نہ خود ماتم کیا اور نہ کرنے کا حکم دیا اور ہم محب اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں اور ان کے قول و فعل کو اپناتے ہوئے صبر کا اظہار کرتے ہیں اور جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ائمہ کرام کے فرمان کو نہ مانے اور بے صبری کا مظاہرہ کرے وہ محب اہل بیت نہیں ہوسکتا ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area