سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا افسوس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
◈ ”سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس جمل کے دن آیا اس وقت آپ کے ساتھ حسن رضی اللہ عنہ اور آپ کے دیگر ساتھی موجود تھے، تو علی رضی اللہ عنہ نے مجھےدیکھ کرکہا: اے بن صرد !
کمزور اور سست پڑگئے اور پیچھے رہ گئے ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ نے کیا کیا ؟ اللہ نے آپ سے بے نیاز کردیا ۔
میں نے کہا: اے امیر المؤمنین ! مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے اور حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ آپ کے دوست اور دشمن میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
پھر جب حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو میں ان سے ملا اور ان کی خدمت میں عرض کیا : آپ نے میری کوئی حمایت نہیں کی اور میری طرف سےعلی رضی اللہ عنہ
کے سامنے کوئی عذر پیش نہیں کیا
حالانکہ
مجھے توقع تھی کہ آپ وہاں موجود رہ کر میری تائید کریں گے ! تو حسن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: انہوں نے (علی رضی اللہ عنہ نے) جو ملامت کرنی تھی وہ تو کردی ،
*لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ جمل کے دن جب لوگ ایک دوسرے کی طرف بڑھے تو انہوں نے (علی رضی اللہ عنہ نے) مجھ سےکہا: حسن تیری ماں تجھے گم پائے ، تیرا کیا خیال ہے میرے اس معاملے میں جس نے دونوں لشکر کو ایک دوسرے کے سامنے کردیا ؟ اللہ کی قسم ! میں اس کے بعد بھلائی نہیں دیکھ سکوں گا!*
تو حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ خاموش ہوجائیں ، آپ کی یہ بات آپ کی ساتھی نہ سننے پائیں ورنہ کہنے لگیں گے آپ نے معاملہ مشکوک کردیا اور پھر آپ کو قتل کرڈالیں گے
📚 [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 21/ 504 و إسناده صحيح]
📌 تبصرہ :
کچھ لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے معاذ اللہ باطل تاویل کی تھی ، تو وہ یہ روایت دیکھ لیں کہ جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں لشکروں کو آمنے سامنے کرنے پر افسردگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
🔴 ہم تو کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنا اپنا اجتہاد کر رہے تھے اور ہمیں اپنی زبانیں صحابہ کے معاملہ میں بند رکھنی چاہییں
• لیکن
کچھ لوگوں کو یہ اہلسنت کا یہ اصول ہضم نہیں ہوتا ، تو ان سے ہمارا سوال ہے کہ اب کیا فتوی لگاؤ گے؟